بڑھاپا اچھا چاہتے ہیں تو اپنی تاریخِ پیدائش ٹھیک کرلیں


زیادہ تر لوگ اپنی تاریخِ پیدائش کو صرف اپنا حقیقی برج یا ستارہ جاننے کے لیے ہی اہمیت دیتے ہیں، اور اس کے علاوہ وہ اس تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی سالگرہ کی تاریخ حقیقی ہو یا من مرضی کی، دوست احباب اور عزیز و اقارب انہیں اسی تاریخ پر ہر سال مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں۔ چند ترقی پسند ادارے اپنے ملازمین کو سالگرہ کا دن منانے کے لیے ایک دن کی چھٹی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسے اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے معلوم ہوسکے کہ کتنے لوگوں کی تاریخ پیدائش حقیقی ہے اور کتنے لوگوں کی جھوٹی ہے۔
والدین کی جانب سے اپنے بچوں کی عمر گھٹانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں۔ لڑکوں کے والدین ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی ملازمت کی مدت بڑھ جائے جبکہ لڑکیوں کے والدین کی جانب سے یہ کوشش اس لیے کی جاتی ہے تاکہ ان کی شادی کے لیے ’بہترین عمر‘ کا دورانیہ بڑھ جائے۔
ایسا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے جس میں صنعتی اور تجارتی اداروں میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی حدِ عمر تجویز کی گئی ہو۔ ہر کمپنی اپنی مرضی سے قوانین مرتب دیتی ہے جس میں ملازم کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کی گئی ہوتی ہے۔
زیادہ تر کمپنیاں ریٹائرمنٹ کے لیے مردوں کی 60 برس جبکہ خواتین کے لیے اس سے بھی کم عمر کی حد مقرر کرتی ہیں۔ تاہم اس صنفی امتیاز کا دھیرے دھیرے خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 1976ء کے تحت مردوں کے لیے پینشن کی اہلیت کی عمر 60 برس جبکہ خواتین کے لیے 55 برس مقرر کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ملنے والی پینشن سے صرف وہی ملازمین مستفید ہوسکتے ہیں جن کے متعلقہ اداروں یا مالکان نے ان کی طرف سے کم از کم 15 برس کے عرصے تک ای او بی آئی کو ہر ماہ ایک مخصوص رقم جمع کروائی ہوتی ہے۔
لکھاری آغا خان یونیورسٹی میں کنسلٹنٹ برائے ایمپلائی ریلشنز ہیں اور آئی ابی اے میں لیبر ویلفیئر قوانین پڑھاتے ہیں۔