سپریم کورٹ: جی آئی ڈی سی کی جانچ پڑتال، فنڈز کے استعمال پر سوالات
10 سال تک گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) اکٹھا کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے رقم کے استعمال پر سوال کیا تو حکومت جواب ڈھونڈتی رہ گئی۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جی آئی ڈی سی 2015 سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوران سماعت عدالت نے وفاقی حکومت سے ان 3 منصوبوں کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے سوال کیا جن کے لیے جی آئی ڈی سی فیس اکٹھا کی گئی تھی اور ساتھ ساتھ وضاحت طلب کی کہ اسے حکومتی اکاؤنٹ میں 'ٹیکس ریونیو' کے طور پر کیوں ظاہر کیا گیا اور کیا ان فنڈز کو ان کے اصل مقصد کے لیے کبھی استعمال بھی کیا گیا یا نہیں۔
ان تمام معاملات پر جواب نفی میں تھا۔
مزید پڑھیں: 'حکومت گیس سیس کو انفرا اسٹرکچر پر خرچ نہیں کر رہی'
سماعت کے آخر میں عدالت نے مایوسی کا اظہار کیا کیونکہ وزارت خزانہ کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ جی آئی ڈی سی کے معاملات دیکھنا ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
سی این جی اسٹیشنز مالکان کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ ایران-پاکستان (آئی پی) پائپ لائن منصوبہ روک دیا گیا ہے اور ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت پائپ لائن منصوبہ (تاپی) میں پاکستان کا حصہ صرف 31 ارب ڈالر ہے جبکہ ایل این جی منصوبوں کے لیے جی آئی ڈی سی کی ضرورت نہیں تاہم حکومت نے اب تک جی آئی ڈی سی کی مد میں 2 کھرب 95 ارب روپے جمع کرچکی ہے۔
بعد ازاں تاپی اور آئی پی منصوبے کے پاکستان کی جانب سے انتظامات سنبھالنے کے ذمہ دار ادارے انٹر اسٹیٹ گیس کمپنی کے سی ای او مبین صولت نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے کافی کام کیا جاچکا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ تو لازم ہے کہ حکومت 2 کھرب 95 ارب روپے اکٹھا کرے اور کچھ نہ کرے، کوئی سروس اب تک فراہم نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر ایک کمپنی 10 سال تک جی آئی ڈی سی ادا کرنے کے بعد ختم ہوئی تو اس کو کیا سروس ملی ہوں گی اور اگر 10 برس بعد جو کمپنی بنے گی وہ کوئی جی آئی ڈی سی ادا کیے بغیر سروس حاصل کرے گی تو یہ کیسے درست ہوگا'۔
کیس پر جب سماعت کا آغاز ہوا تو حکومتی اداروں کا کوئی بھی نمائندہ عدالت میں موجود نہیں تھا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور عدالت کے اسٹاف کو پیغام پہنچانے کا حکم دیا۔
دریں اثنا عدالت نے مخدوم علی خان سے کہا کہ چند سوالوں پر آئینی حیثیت کے حوالے سے وضاحت کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کتنا کام کرلیا گیا ہے جس پر سی ای او نے جواب دیا کہ معاہدے کیے جاچکے ہیں، زمین حاصل کی جائے گی اور کام کا آغاز ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ صرف کاغذی کارروائی ہوئی ہے اور حقیقت میں کچھ بھی نہیں کیا گیا اب تک، سی ای او نے اعتراف کیا کہ یہ حقیقت ہے تاہم تاپی کے لیے زمین حاصل کرنے کے مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا اس حوالے سے کوئی نوٹی فکیشن جاری کیا گیا جس کا جواب بھی نفی میں تھا۔
سی ای او نے کہا کہ آئی پی منصوبے کے لیے نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا تاہم جب جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ کیا کوئی زمین حاصل کی ہے تو انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا ہے، نوٹی فکیشن صرف کارروائی کے آغاز کے لیے تھا۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے کوئی معاہدہ یا دستاویزات پیش نہیں کیے ہیں اور صرف غیر دستخط شدہ بیان جاری کیے ہیں اور ان بیانات سے بھی واضح ہے کہ کاغذی کارروائی کا آغاز بھی کیسز کے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گیس کی قیمتوں میں اضافہ مؤخر، ترک کمپنی کے پورٹ چارجز معاف
سی ای او نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بہت کام کیا جاچکا تھا تاہم بعد ازاں انہوں نے اعتراف کیا کہ بیانات پر دی گئی تاریخیں کیس کے عدالت میں آنے کے بعد کی ہیں۔
یہی سوال جب اکاؤنٹینٹ جنرل کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں وہ رقم صرف اس وقت جاری کرسکتے ہیں جب منصوبے کے لیے پی سی ون تیار کرلیا جائے گا۔
اکاؤنٹینٹ جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں اب تک منصوبے کے لیے پی سی ون موصول نہیں ہوا ہے۔
جب جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس اکٹھے کیے گئے 2 کھرب 95 ارب روپے پر اختیار ہے تو انہوں نے جواب میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وزارت خزانہ کا کام ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ رقم کو ٹیکس ریونیو کے طور پر کیوں دکھایا گیا ہے جبکہ یہ فیس تھی۔
اکاؤنٹنٹ جنرل نے دوبارہ کہا کہ یہ کام وزارت خزانہ کی جانب سے کیا گیا ہے اور ان کا اس پر کوئی اختیار نہیں۔
ڈپٹی سیکریٹری فنانس نے بھی بیان دیا کہ انہیں بھی نہیں معلوم کہ فنڈز کو نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن اور گیس اسٹوریج منصوبے کے لیے کیوں جاری نہیں کیا گیا کیونکہ یہ معاملہ ان کے پاس نہیں۔
ان کے مطابق ان کی ذمہ داری بجٹ کے حوالے سے ہے اور یہ معاملہ بجٹ کا نہیں ہے۔
جی آئی ڈی سی کا معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب حکومت نے متنازع آرڈیننس کے ذریعے فرٹیلائزر کی صنعت، آئی پی پیز، توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں، کے الیکٹرک اور سی این جی کے شعبے کے لیے 2 کھرب 10 ارب روپے کے گرانٹ کی پیش کش کی تھی۔