الیکشن کمیشن کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ عوام اس پر اعتماد کیوں نہیں کرتے!
حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان طویل اور مشکل مشاورتی مرحلے کے بعد الیکشن کمیش آف پاکستان (ای سی پی) کے چیف سمیت 3 خالی جگہیں پُر ہوچکی ہیں اور اسی کے ساتھ 5 رکنی کمیشن مکمل ہوچکا۔
لیکن اس کے باوجود اب بھی پورے ایک سال کے لیے 2 صوبائی عہدے خالی ہیں کیونکہ ممبران کے ناموں پر تاحال وزیرِاعظم اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو نئے اور آئندہ برس تعینات ہونے والے مزید 2 ممبران 2023ء کے عام انتخابات کا انعقاد کروانے کے ذمہ دار ہوں گے اور اس سے پہلے الیکشن کمیشن کو چاروں صوبوں، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات کروانے ہوں گے۔
انتخابات کے انعقاد کے علاوہ ای سی پی کو کئی دیگر چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جنہیں عوام اور ریاست کی مدد کے بغیر پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔
سب سے پہلا چیلنج ساکھ کا ہے اور ہر الکیشن کے بعد یہ چیلنج مزید مشکل بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ 11 انتخابات کے دوران ہر بار الیکشن کمیشن کو چند خاص نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن 1977ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہونے والی دھاندلی، 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں ریاستی خفیہ اداروں کی مداخلت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 2013ء کے عام انتخابات میں ہونے والی مبیّنہ دھاندلی کے خلاف 126 ایام پر مشتمل دھرنے، (یاد رہے کہ اس الزام کو بعدازاں عدالتی کمیشن نے مسترد کردیا) اور حال ہی میں 2018ء کے عام انتخابات میں ہونے والی مبیّنہ دھاندلی کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کے ’آزادی مارچ‘ سے انتخابی نظام کی ساکھ اور عوامی اعتماد کو کچھ زیادہ ہی ٹھیس پہنچی ہے۔