21 جنوری کو اس طالبعلم کو اس وقت شک ہوا ہے کہ وہ اس وائرس کا شکار ہوچکا ہے جب وہ بہت زیادہ کمزوری محسوس کرنے لگا، اس نے اپنا درجہ حرارت چیک کیا جو بڑھ چکا تھا۔
اس وقت تک کورونا وائرس کے حوالے سے زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی تھی، مگر انتظامیہ کی جانب سے تصدیق ہوچکی تھی کہ یہ مرض انسانوں کے درمیان تیزی سے پھیل رہا ہے۔
نصف شب کو ٹائیگر یائی ووہان کے ٹونگ جی ہسپتال پہنچا جہاں کے ویٹنگ روم میں اس جیسے افراد کا رش تھا اور طالبعلم کو معلوم تھا کہ اسے ٹیسٹ کے لیے گھنٹوں تک انتظار کرنا ہوگا۔
اس نے بتایا کہ 'میں خوفزدہ تھا، لاتعداد کیسز کا ڈیٹا میزوں پر اکٹھا ہورہا تھا اور ہر ڈاکٹر نے حفاظتی ملبوسات پہنے ہوئے تھے، ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا'۔
اگلے 2 ہفتے سے زائد وقت تک اس طالبعلم کا وقت ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کے ساتھ گزرا، جس دوران وہ یہ تصدیق کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ اس وائرس کا شکار ہوچکا ہے اور علامات کی شدت میں اضافے کا علاج کراسکے۔
وہ ان چند خوش قسمت افراد میں سے ایک ہے جو اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب رہا کیونکہ اس کے والد ایک ہیلتھ ورکر ہیں، جس کی وجہ سے اس نوجوان کو ووہان کی بیشتر آبادی سے پہلے اس کے خطرات کا علم ہوچکا تھا۔
چین کے صوبے ہوبے (ووہان اس کا صدر مقام ہے) میں اس وائرس سے اب تک ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ ہسپتالوں میں بستروں، ٹیسٹنگ کٹس اور دیگر بنیادی طبی آلات کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے متعدد افراد کو تشخیص کے عمل میں تاخیر کا سامنا ہوا۔
جس رات پہلی بار ٹائیگر یائی نے علاج کے حصول کی کوشش کی، وہ ایک چھوٹے ہسپتال سے ادویات کے حصول میں کامیاب رہا، چونکہ اس کی علامات بہت زیادہ شدید نہیں تھیں، تو ڈاکٹروں نے اسے گھر جا کر خود کو الگ تھلگ یا قرنطینہ میں رکھنے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں : چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1665 تک پہنچ گئیں
بیماری کے ساتھ اگلے 4 دن بہت سخت ثابت ہوئے اور طالبعلم نے بتایا کہ 'مجھے تیز بخار اور پورے جسم میں شدید درد کا سامنا ہوا'۔
اس نے یہ دن جاپانی کارٹون دیکھتے ہوئے گزارے تاکہ ذہن کا دھیان تکلیف سے ہٹا سکے۔
4 دن بعد وہ دوبارہ ہسپتال پہنچا تو وائرس کے پھیلاﺅ کے اقدامات کیے جارہے تھے اور حالات اچانک بدل گئے تھے جبکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا۔
اس وقت تک ٹائیگر یائی کی حالت زیادہ خراب ہوچکی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ 'میں ایسے کھانس رہا تھا جیسے میں مرنے والا ہوں'۔
ہسپتال میں متعدد سی ٹی ٹی اسکینز سے معلوم ہوا کہ یہ نوجوان نوول کورونا وائرس کا شکار ہوچکا ہے، جو اس کے پھیپھڑوں تک پھیل چکا ہے مگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس کا کیس اتنا سنگین نہیں کہ اس کا nucleic acid test (وائرس کا جینیاتی سیکونس استعمال کرکے متاثر ہونے کی تصدیق کرنے والا ٹیسٹ) کیا جائے، کیونکہ وہ ٹیسٹ کٹس کی کمی کے باعث انہیں زیادہ بیمار افراد کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
چین میں گزشتہ ہفتے وائرس کی تشخیص کے طریقہ کار میں تبدیلی کرکے سی ٹی اسکین امیجنگ کے ذریعے یہ کام کرنا شروع کیا گیا۔
دوسری بار ہسپتال سے گھر واپسی پر بھی اس نوجوان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ وائرس سے متاثر ہوا ہے یا نہیں، اس دوران اس کے بھائی اور دادی میں بھی انفیکشن کی علامات ظاہر ہونے لگیں جبکہ راتوں رات ٹائیگر یائی کی علامات میں شدت بڑھنے لگی اور اسے لگا کہ وہ مرنے والا ہے۔