پاکستان

کور کمانڈر حملہ کیس: کالعدم جنداللہ کے 9 مجرمان کی سزائے موت برقرار

جون 2006 میں سندھ ہائی کورٹ میں دائر اپیل پر اس عرصے میں 35 سے زائد ججز نے سماعت کی،رپورٹ

کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے کور کمانڈر کے قافلے پر حملے میں ملوث کالعدم تنظیم جنداللہ کے 9 جنگجوؤں کی سزائے موت کو برقرار رکھا جبکہ ان کے 2 ساتھیوں کو بری کردیا۔

جسٹس محمد کریم خان آغا اور جسٹس عبدالمبین لاکھو پر مشتمل انسداد دہشت گردی ایپلیٹ بینچ نے 11 ملزمان کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر کی گئی اپیل پر 28 جنوری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 22 فروری، 2006 کو عطاالرحمٰن عرف ابراہیم، شہزاد احمد باجوہ، یعقوب سعید، عذیر احمد، شعیب صدیقی، دانش انعام، نجیب اللہ، خرم سیف اللہ، شہزاد مختار، خالد راؤ اور عدنان شاہ کو سزائے موت سنائی تھی۔

ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو 10 جون، 2004 کو پرانے کلفٹن کے پل پر کور کمانڈر فائیو کور لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات کےقافلے پر حملے سمیت مختلف جرائم میں قصوروار قرار دیا تھا، حملے کے نتیجے میں 6 فوجی جوان، 3 پولیس اہلکار اور ایک راہ گیر شہید ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: جنداللہ کا مبینہ دہشت گرد کراچی سے گرفتار، سی ٹی ڈی

تمام ملزمان نے جون 2006 میں سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرکے سزاؤں کو چیلنج کیا تھا جس پر اس عرصے میں 35 سے زائد ججز نے سماعت کی۔

فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ کی ایپلیٹ بینچ نے فیصلہ دیا کہ ٹرائل کورٹ نے 9 درخواست گزاروں عطاالرحمٰن عرف ابراہیم، شہزاد احمد باجوہ، عذیر احمد، شعیب صدیقی، دانش انعام، خرم سیف اللہ، شہزاد مختار، خالد راؤ اور عدنان شاہ کو صحیح سزا سنائی تھی۔

بینچ نے مذکورہ 9 سزا یافتہ مجرمان کی اپیل کو جزوی طور پر مسترد کردیا، عدالت نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے ان 9 ملزمان کو سنائی گئی سزاؤں کی تصدیق کے لیے بھیجے گئے ریفرنس کا مثبت جواب دیا۔

تاہم یعقوب سعید اور نجیب اللہ کو رہا کردیا اور جزوی طور پر انہیں اپیل کی اجازت دی، عدالت نے ان کے خلاف ٹرائل کورٹ کے ریفرنس کا جواب انکار میں دیا۔

عدالت میں ایڈووکیٹ مشتاق احمد نے درخواست گزاروں جبکہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ریاست کی نمائندگی کی۔

کالعدم تنظیم جنداللہ سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو 13 جون، 2004 کو ماڈل کالونی قبرستان کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 324ْ، 404 اور 34، انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1999 کی دفعہ 7 اور ایکسپلوسیوز ایکٹ کی دفعات 3، 4 اور 5 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

ٹرائل کورٹ نے پُل پر 2 بم نصب کرنے پر عمر قید کی سزا بھی سنائی تھی اور ملزمان کی جائیدادوں کو تحویل میں لینےکا حکم بھی دیا تھا۔

عدالت نے حملے کے دوران 10 افراد کو زخمی کرنے پر 14 سال قید کی سزا اور ہر ایک پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔

ٹرائل کورٹ نے ہر مجرم کو حملے میں جاں بحق افراد کے قانونی ورثا کو ایک لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

پروسیکیوشن کے مطابق مجرم نجیب اللہ نے پکنک کے لیے ایک گاڑی بُک کروائی تھی اور اس کے مالک کو فیڈرل بی ایریا میں واقع گھر میں گاڑی بھیجنے کا کہا تھا۔

اس میں ڈرائیور غلام رسول اور بختیار خان کے بطور عینی شاہدین بیانات کا حوالہ دیا گیاتھا جنہوں نے کہا تھا کہ وہ بتائے گئے مقام پر شام 6بجے پہنچ گئے تھے لیکن صرف 3 ملزمان وہاں موجود تھے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ملزم نے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو گن پوائنٹ پر رکھا تھا اور ملزم عذیر احمد نے وین چلانا شروع کی تھی ۔

یہ بھی پڑھیں: جنداللہ کے سربراہ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

انہوں نے کہا تھا کہ ملزم نجیب اللہ نے کنڈیکٹر کو کوئی انجیکشن لگایا تھا اور گلستان جوہر میں واقع جوہر چورنگی سے تھوڑا پہلے اسے وین سے باہر نکال دیا تھا جبکہ اس نے ڈرائیور کو بھی کوئی انجیکشن لگایا تھا اور اسے بھی گاڑی سے باہر نکال دیا تھا۔

پروسیکیوشن نے کار رینٹل ڈیلر غلام کے بطور اہم عینی شاہد گواہی کا جائزہ لیا تھا، جنہوں نے ملزم نجیب اللہ کا پہچان لیا۔

گواہ نےکہا تھا کہ نجیب اللہ نے 9 جون، 2004 کو 10 جون کو پکنک کے لیے ہائی ایکس بک کروانے کے لیے ان کے دفتر آیا تھا۔

پروسیکیوشن کے دیگر گواہان،عینی شاہدین کیپٹن سلمان مسعود، حوالدار عبدالرشید، لانس نائیک محمد صفدر، حوالدار

ظفر عباس جو اس وقت کور کمانڈر کی گاڑی میں موجود تھے انہوں نے قافلے پر حملہ کرنے والے ملزمان شہزاد احمد باجوہ، شعیب صدیقی، شہزاد مختار اور خرم سیف اللہ کی نشاندہی کی تھی۔


یہ خبر 15 فروری، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ترکی ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے، بھارت

چینی اور آٹے کے بحران میں حکومت کی کوتاہی قبول کرتا ہوں، وزیر اعظم

لاہور: شریف خاندان کے دفاتر پر نیب کے چھاپے