زبان کی پابندی سے احتیاط کیجیے، بچہ جس زبان میں چاہے پڑھنے دیجیے!
تدریسی زبان ہمیشہ سے ایک حل طلب مسئلہ رہا ہے اور حالیہ دنوں میں یہ ایک بار پھر گرما گرم بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ مگر اب چونکہ مادری زبان کی حامی لابی گزشتہ برسوں میں مضبوط ہوئی ہے، اس لیے ان کی آواز سنی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان سے پیدا ہونے والے جذبات کو کبھی بھی دبایا نہیں جاسکتا۔
تو اس بار اس تنازع کو کس نے جنم دیا؟ اس کے پیچھے قومی نصاب کونسل کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ تھی۔ بعدازاں اس کونسل کے ایک رکن نے اسے ’غلط اطلاعات پر مبنی‘ رپورٹ قرار دیا۔
غلط کہی جانے والی اس رپورٹ نے پرائمری سے 12ویں تک کے چند مضامین کے لیے انگریزی زبان کو بطور تدریسی زبان استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ رپورٹ میں مقامی زبانوں کو مکمل طور پر خارج کردیا گیا تھا، جس پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور یہ بات قابلِ فہم بھی ہے۔ شکر ہے کہ کچھ وقت بعد حکومت نے ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ تدریسی زبانوں کا معاملہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔