پاکستان

چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش

نواز شریف کی صحت تاحال خراب ہے اور معالجین کا کہنا ہے کہ وہ ابھی سفر نہیں کرسکتے، وکیل کا موقف
|

احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے ان کی تازہ میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کروادیں۔

لاہور کی احتساب عدالت کے جج ملک امیر محمد خان نے نواز شریف، مریم نواز اور یوسف عباس کے خلاف نیب کی درخواست پر کیس کی سماعت کی۔

کیس کی گزشتہ سماعت میں عدالت نے نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹس طلب کی تھی جس پر آج کی سماعت میں سابق وزیراعظم کی تازہ میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کروائی گئیں۔

آج ہونے والی سماعت میں نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل امجد پرویز پیش ہوئے جنہوں نے میڈیکل رپورٹس کے علاوہ نواز شریف کی آج کی سماعت میں حاضری سے معافی کی درخواست بھی عدالت میں پیش کی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت پنجاب نواز شریف کی طبی رپورٹس سے غیر مطمئن

وکیل امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ نواز شریف کی صحت تاحال خراب ہے اور معالجین کا کہنا ہے کہ وہ ابھی سفر نہیں کرسکتے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کا بیرون ملک علاج معالجہ جاری ہے اور وہ ایک کلینکل ٹیم کی نگرانی میں ہیں جبکہ فروری کے آخر میں ان کا میڈیکل چیک اپ اور ٹریٹمنٹ شیڈول ہے۔

جس پر احتساب عدالت نے نواز شریف کی آج کی سماعت میں حاضری سے معافی کی درخواست منظور کر لی۔

سماعت میں سابق وزیراعظم کے بھتیجے اور کیس کے ملزم یوسف عباس کو پیش کیا گیا جن کے عدالتی ریمانڈ میں 28 فروری تک توسیع کردی۔

یاد رہے کہ 22 نومبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو چوہدری شوگر ملز کیس میں 4 ہفتوں جبکہ مریم نواز کو ریفرنس فائل ہوجانے تک حاضری سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی بیرون ملک جانے کی درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ تحلیل

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف، مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی،بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوئی تاہم 4 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرلی تھی جس پر 6 نومبر کو لاہور کی احتساب عدالت سے رہائی کی روبکار جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

دوسری جانب نیب نے العزیزیہ ریفرنس ملز کیس میں سزا کاٹنے والے سابق وزیراعظم کو چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کے لیے نیب ہیڈ کوارٹر لاہور منتقل کیا تھا جہاں سے انہیں21 اکتوبر 2019 کو نیب کی تحویل میں خرابی صحت کے سبب تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

تاہم صحت کی مسلسل بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظر اور مقامی طور پر مسلسل علاج کے باوجود بھی بیماری کی تشخیص نہ ہونے پر نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے سلسلے میں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

جس پر سابق وزیراعظم 19 نومبر کو اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن چلے گئے تھے اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔

علاوہ ازیں کیس کے تیسرے ملزم یوسف عباس کی گرفتاری کے بعد سے اب تک ریمانڈ پر ہیں جس میں ہر سماعت کے ساتھ مسلسل توسیع کردی جاتی ہے۔

چین سے پاکستانی طلبہ کی واپسی کا معاملہ: والدین کی سہولت کیلئے فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم

فاطمہ سہیل سے خلع کے بعد محسن عباس نے پہلی فلم سائن کرلی

یمن میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر 'مسلم اتحادی افواج' کو مقدمات کا سامنا