کورونا وائرس کی ابتدائی انتباہی علامات کی شناخت ہوگئی
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے نئے کورونا وائرس جسے کووِڈ19 کا نام دیا گیا ہے، سے اب تک چین سمیت 43 ممالک میں 81 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے، جن میں پاکستان میں 2 کیسز بھی شامل ہیں۔
اب تک 2770 اموات اس وائرس کے نتیجے میں ہوچکی ہیں جن میں سے زیادہ تر چین میں ہوئیں جبکہ جنوبی کوریا، ایران، اٹلی، فرانس، فلپائن، جاپان، تائیوان اور ڈائمنڈ پرنسز جہاز میں بھی ہلاکتیں ریکارڈ ہوئیں۔
یہ وائرس گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں چین کے شہر ووہان میں پہلی بار سامنے آیا تھا اور پھر دیگر ممالک میں پھیلنے لگا۔
اب چین میں اس کے نئے کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے مگر دیگر ممالک میں اس تعداد میں تیزی سے اجافہ ہورہا ہے۔
ایک تحقیق کے نتائج سے اس کے پیچھے چھپی وجہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جس میں اس نئے کورونا وائرس سے منسلک علامات اور ان کے رجحانات کی شناخت کی گئی ہے۔
ووہان یونیورسٹی کے زہونگنان ہسپتال کی تحقیق میں 140 کے قریب ہسپتال میں داخل مریضوں میں اس وائرس کی علامات اور دیگر عناصر کا جائزہ لیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ اس وائرس کی سب سے عام ابتدائی علامت بخار ہے جو تحقیق میں شامل 99 فیصد مریضوں میں دیکھنے میں آئی۔
دیگر عام علامات میں تھکاوٹ اور خشک کھانسی شامل ہیں جو تحقیق میں شامل 50 فیصد سے زائد مریضوں میں دیکھنے میں آئیں۔
ایک تہائی نے مسلز میں درد اور سانس لینے میں مشکل کی شکایت کی، تاہم ابتدائی علامات سامنے آنے کے 5 دن بعد (اوسطاً) مریضوں کو سانس لینے میں مشکل کی علامت کا سامنا ہوا۔
دیگر علامات میں عام نزلہ زکام، سردرد یا گلے میں تکلیف شامل ہیں، جو کیسز کی بہت کم تعداد میں سامنے آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ 14 مریضوں میں بخار یا سانس لینے میں مشکلات سے ایک سے 2 دن قبل ہیضے اور متلی کا بھی سامنا ہوا، جبکہ حالت بگڑنے پر 15 فیصد میں نمونیے کی تشخیص بھی ہوئی۔
اس سے وائرس کے پھیلاﺅ کے ایک اور ممکنہ ذریعے کا بھی عندیہ ملتا ہے کیونکہ تحقیق میں بتایا کہ ہاضمے کی خرابی کی علامات والے ایک مریض کو سرجیکل ڈپارٹمنٹ بھیجا گیا تھا کیونکہ ان علامات کو روایتی کورونا وائرسز کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا۔
اس مریض نے ہسپتال میں موجود کم از کم 4 مزید مریضوں کو وائرس سے متاثر کیا اور ان سب میں ہاضمے کی خرابی کی علامات ظاہر ہوئیں۔
تاہم ابھی اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق میں شامل 140 کے قریب مریضوں میں لگ بھگ 30 فیصد طبی عملے کے افراد تھے۔
تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے ہیں۔