سیاست، ایک غلیظ کھیل کیوں بن گیا؟
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پیش آنے والے بدنما واقعات نے ایک بار پھر اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ جمہوری مزاج کو فروغ دیتے ہوئے جلد از جلد نمائندہ حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے۔
شروع کرتے ہیں اس واقعے سے جس میں ایک وفاقی وزیر ٹی وی شو کے دوران میز پر فوجی بوٹ رکھتے ہوئے حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے محاذ آرا ہوئے۔ اس واقعے کو ایک بیہودہ حرکت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی اور تہذیب کے فقدان کے سبب وزیر پر پابندی عائد کردی گئی۔
یہ غیر سنجیدہ حرکت دراصل اس سرکاری بیانیے کی ایک کڑی تھی جس کا آغاز و انجام اپوزیشن کو بُرا دکھانے پر ہوتا ہے۔ چند مخصوص گھٹیا الفاظ اپوزیشن میں ’دیگر‘ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ناپختہ سوچ کے حامل تنظیمی گروہ میدان میں ہوں تو پھر سیاستدانوں کی آپسی زبانی لڑائی بیہودہ زبان تک جا پہنچتی ہے۔
اس واقعے کا اہم ترین پہلو یہ رہا کہ اس نے سیاسی طور پر نابالغ رویے کو آشکار کیا، اور ساتھ ساتھ دنیا بھر میں چلنے والی اکثریت پسند ریاستی ماڈل کے خاتمے کی تحریک سے منہ موڑتے ہوئے شراکتی جمہوریت اپنانے کی مہم سے لاعلمی ظاہر کی۔
شراکتی جمہوریت کے اندر پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعت چھوٹی جماعتوں کو ملکی امور سنبھالنے میں اپنا حصہ ڈالنے کے حق کو تسلیم کرتی ہے، چاہے وہ جماعتیں حزبِ اختلاف کا ہی حصہ کیوں نہ ہوں۔