پاکستان

حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

قواعد کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 50 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

اس میں جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل ہیں۔

ان قواعد و ضوابط کے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرونک طریقے سے’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورتحال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان

علاوہ ازیں ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

اس ضمن میں جب سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب احمد صدیقی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اس قواعد و ضوابط کی کابینہ نے 28 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں منظوری دی تھی اور رائے دی تھی کہ کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 اینڈ پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ، 2016 کی ماتحت قانون سازی ہے‘۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے کا فیصلہ

اس حوالے سے جاری ایک حکمنامے کی نقل کے مطابق ’ان قواعد و ضوابط کے نفاذ کے 15 روز کے اندر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کے محکمہ کے انچارج وزیر نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک نیشنل کوآرڈینیٹر نامزد کریں گے‘۔

مذکورہ نیشنل کوآرڈینیٹر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو قومی سلامتی کی ضرویات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کمپنیز کو فعال رکھنے یا ضوابط اور انتظامی امور کے بارے میں محکموں، حکام اور اداروں کو ہدایات جاری کرنے کی تجویز دے گا۔

اس طرح تمام محکمے، ادارے اور حکام ان ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے، ان ہدایات میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے ڈیٹا کا حصول اور غیر قانونی مواد بلاک کرنے سے متعلق کارروائیاں شامل ہوسکتی ہیں۔

نیشنل کوآرڈینیٹر، آن لائن سسٹم کے افعال سے متلعق کسی پہلو پر بات کرنے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں اور کسی کمپنی کے نمائندے کو ذاتی حیثیت میں بلانے کے لیے رابطہ کرسکتا ہے۔

علاوہ ازیں نیشنل کوآرڈینیٹر ہی وہ واحد اتھارٹی ہو گا جو ہنگامی صورتحال کا تعین کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کو سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اسی طرح کسی اتھارٹی یا نیشنل کوآرڈینٹر کی جانب سے کسی آن لائن مواد کی تشریح یا اجازت کو کسی بھی قسم کے کمیونٹی اسٹینڈرڈز یا قواعد یا کمیونٹی گائیڈ لائنز یا پالیسیز یا پھر سوشل میڈیا کمپنی کے وضع کردہ اصولوں پر سبقت حاصل ہو گی۔

ان اصولوں کے تحت کمپنی قانون، قواعد و ضوابط یا نیشنل کووآرڈینیٹر کی ہدایت کے خلاف کسی مواد، بالخصوص دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت آمیز بیانیہ، ہتک عزت، جعلی خبروں، قومی سلامتی اور تشدد کے لیے اکسانے کے حوالے سے کسی آن لائن مواد کی پاکستان میں لائیو اسٹریمنگ روکنے کے لیے حفاظتی میکانزم قائم کرے گی۔

علاوہ ازیں کمپنیاں ایسے مواد جن سے جعلی خبریں پھیلائی جائیں یا یا ہتک عزت کی جائے یا مذہبی، ثقافتی، نسلی یا پاکستان کی قومی سلامتی کی حساسیت سے متعلق ہوں اور ملک کی سرحدوں سے باہر رہائش پذیر پاکستانی شہریوں کے آن لائن مواد یا اکاؤنٹ کو ختم کرنے، معطل کرنے یا ان تک رسائی روکنے کی پابند ہوں گی۔

مذکورہ قواعد پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں نیشنل کوآرڈینیٹر پورے آن لائن نظام، سوشل میڈیا ایپلیکیشن یا اس کمپنی کے زیر انتظام اور فراہم کردہ خدمات کو بلاک کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تکنیکی صلاحیت بڑھائیں یا سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کریں

بلاک ہونے کی صورت میں اس کمپنی کے پاس وفاقی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی سے رجوع کرنے کے لیے 2 ہفتوں کا وقت ہوگا اور پھر کمیٹی 3 ماہ میں اس کا فیصلہ کرے گی۔

بعدازاں اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دینے کی تاریخ سے 30 روز تک کی مدت میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاسکے گا۔

مشیر خزانہ کے ساتھ انا کا مسئلہ نہیں، وہ ٹھیک کام کر رہے ہیں، اسد عمر

وزیر اعظم کی دفتر خارجہ کو ووہان میں پھنسے پاکستانیوں کی مدد کی ہدایت

شہدائے اے پی ایس کے لواحقین کا احسان اللہ احسان کے 'فرار' کی وضاحت کا مطالبہ