'ترک فوج کو معمولی خراش بھی آئی تو شامی فورسز کو ہر جگہ نشانہ بنائیں گے'
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے فوجیوں کو معمولی خراشیں بھی آئیں تو شامی فورسز کو 'ہر جگہ' اور 'ہر طریقے' سے نشانہ بنائیں گے۔
انقرہ میں پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران ترک صدر نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا۔
مزید پڑھیں: ترکی کی روس کو شام میں معاہدے کی خلاف ورزی پر پلان بی کی دھمکی
پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ 'اگر ہماری نگراں پوسٹوں یا دیگر مقامات پر تعینات فوجیوں کو معمولی سی چوٹ بھی لگی تو میں یہاں سے اعلان کر رہا ہوں کہ ہم ادلب کی سرحدوں یا امن معاہدے کی پرواہ کیے بغیر ہر جگہ شامی حکومت کی افواج کو نشانہ بنائیں گے۔'
رجب طیب اردوان نے مزید کہا کہ 'ہم اس کام کے لیے کوئی بھی راستہ اپنائیں گے، زمینی یا فضائی حملے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوں گے'۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ شام کی حکومت 'شہریوں پر مسلسل حملے، قتل عام اور خون بہا رہی ہے۔'
ترک صدر نے الزام لگایا کہ دانستہ حملے کرکے شہریوں کو ترک سرحد کی طرف دھکیلانا مقصد ہے تاکہ ان کی آڑ میں سرحدی علاقے پر قبضہ کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی، امریکا شمال مشرقی شام میں جنگ بندی پر راضی ہوگئے، مائیک پینس
انہوں نے کہا کہ ادلب میں کارروائیوں میں شامل طیارے 'اب آزادانہ حرکت نہیں کریں گے'۔
دوسری جانب روسی حکام نے بتایا کہ روس کے صدر ولادی میر پیوتن اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب ادوان کے مابین فون پر شام میں کشیدگی کے خاتمے پر تبادلہ خیال ہوا۔
حکام کے مطابق ماسکو اور انقرہ نے امن معاہدوں پر مکمل عمل درآمد پر زور دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے 'شام میں جاری بحران کے حل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا، ادلب کشیدگی کو کم کرنے کے مسئلے پر تفصیلی بات کی'۔
واضح رہے چند روز قبل ترکی نے خبردار کیا تھا کہ اگر شام کے شمال مغرب سے متعلق 'محفوظ زون' کے امن معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو انقرہ پلان بی (ایکشن) پر عملدرآمد شروع کردے گا۔
مزید پڑھیں: ترکی کا شام میں مقاصد کے حصول تک آپریشن جاری رکھنے کا اعلان
ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے کہا کہ 'اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہمارے پاس پلان بی اور پلان سی ہے'۔
واضح رہے کہ روس کے ساتھ 2018 کے معاہدے کی رو سے ترکی نے ادلب میں 12 پوسٹیں قائم کی تھیں۔
اس ضمن میں ترکی کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ رواں ہفتے ان میں سے 3 پوسٹوں کو شام کے صدر بشارالاسد کی سرکاری فورسز نے گھیرے میں لے لیا تھا۔
واضح رہے کہ ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلو میٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔
معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی فورسز 'سیف زون' میں مشترکہ پیٹرولنگ کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں عسکری خلا کو پر کرنے کیلئے روسی افواج تعینات
اس پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے معاہدے سے متعلق کہا تھا کہ اس سے خطے میں خونریزی کا اختتام ہوگا۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے مغربی ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کے آپریشن میں تعاون نہ کرنے پر ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
انقرہ کا ماننا ہے کہ وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی 'دہشت گرد' تنظیم ہے جو ترکی میں 1984 سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔
انقرہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے 'پی کے کے' کو بلیک لسٹڈ دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
انقرہ کی کرد فورسز کے خلاف فوجی کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید سامنے آئی ہے اور نیٹو ممالک نے نئے اسلحے کی فروخت معطل کردی ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے 9 اکتوبر سے شامی کرد فورسز کو سرحد کے پیچھے دھکیلنے کے لیے شروع ہونے والے آپریشن پر بارہا 'گہری تشویش' کا اظہار کیا تھا۔