دہلی الیکشن: ’جے شری رام‘ کے سیاسی نعرے کو ’جے بجرنگ بلی‘ کا کرارا جواب

بھارت کے دارالحکومت دہلی کے ریاستی انتخابات میں تیسری مرتبہ عام آدمی پارٹی (عاپ) کی حکومت قائم ہوگئی۔ مرکز میں حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) ریاستی اسمبلی کی 70 میں سے صرف 8 نشستوں میں ہی کامیابی حاصل کرسکی، جبکہ دہلی میں طویل ترین حکومت کا ریکارڈ رکھنے والی کانگریس اس بار ایک نشست بھی نہیں جیت سکی۔
اگرچہ قومی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بی جے پی اس سے قبل بھی 5 دیگر ریاستی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھ چکی ہے، لیکن دہلی میں اس کی شکست کو ملنے والی اہمیت کے اسباب مختلف ہیں۔
شہریت قانون میں ترمیم (سی اے اے) کی منظوری کے 2 ہفتوں بعد ہی بی جے پی کو جھاڑکھنڈ کے ریاستی انتخابات میں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن بی جے پی نے دہلی کے انتخابات کو اس قانون کی عوامی حمایت کا پیمانہ بنانے کی مہم چلائی۔
اس قانون کے خلاف دہلی کے علاقے شاہین باغ میں جاری طویل دھرنے کے شرکا نے خود کو سیاست سے دُور رکھا ہوا ہے لیکن بی جے پی نے انہیں سیاسی رنگ دینے کی پوری کوشش کی۔ انتخابی مہم میں وزیرِاعظم مودی ہوں، وزیرِ داخلہ امت شاہ، یوپی کے وزیرِاعلی یوگی ادتیہ ناتھ، مرکز میں خزانے کے جونیئر وزیر انوراگ ٹھاکر یا ان کی جماعت کے مقامی رہنما ہوں، ان سبھی نے شاہین باغ کے مظاہرین اور سی اے اے کے مخالفین کو مسلسل نشانے پر رکھا۔
اس کے علاوہ حالیہ دیگر ریاستی انتخابات کے بنسبت دہلی میں بی جے پی نے بہت بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ بی جے پی کی جانب سے ان انتخابات کو اہمیت دینے کے بھی اپنے اسباب تھے۔
2014ء اور 2019ء کے عام انتخابات میں تو بی جے پی نے دہلی میں لوک سبھا کی ساتوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے برعکس 2015ء میں ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت کر سب کو ہی حیران کردیا، اور اب جب 2019ء میں حکمراں جماعت بی جے پی نے دہلی الیکشن میں اپنا پورا زور لگایا تو خیال تھا کہ شاید اس بار نتیجہ مختلف ہو، مگر 2019ء میں بھی عاپ تیسری بار حکومت میں آگئی۔
2014ء کے عام انتخابات میں دہلی میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے 46 فیصد بی جے پی کو ملے اور 2019ء میں یہ شرح بڑھ کر 56 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 2019ء کے عام انتخابات کے بعد بی جے پی کو یہ اعتماد حاصل ہوا تھا کہ وہ دہلی کے انتخابات میں بھی ہندتوا کے سیاسی ایجنڈے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
صاحبِ تحریر گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ انٹرویو، ترجمہ نگاری کے ساتھ ساتھ عالمی سیاسی و معاشی حالات ان کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ ادبی و سماجی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں