بھارت:متنازع قانون کے خلاف احتجاج پر پولیس کی خواتین سے بدتمیزی، بہیمانہ تشدد
بھارتی پولیس نے دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہوئے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور زخمی کردیا۔
نئی دہلی کے ہسپتال میں داخل خواتین نے میڈیا کو بتایا کہ مرد پولیس اہلکاروں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
میڈیا کو ایک خاتون نے بتایا کہ ‘پولیس سے میں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیں تو خواتین پولیس اہلکار مجھے دھکا دیتی ہے جس سے میں گرجاتی ہوں، مرد اہلکار نے بوٹ سے میرے سینے پر مارا اور پرائیویٹ حصے پر مارا جہاں سوجن ہوئی ہے جس کو ڈاکٹر نے بھی دیکھا ہے’۔
درد کی حالت میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میرا آپریشن ہوا ہے اور ابھی میرے ٹانکوں میں درد ہورہا ہے، پولیس نے مجھے بہت مارا ہے’۔
مزید پڑھیں:بھارت: عدالت کا شاہین باغ کے مظاہرین کو فوری ہٹانے کا فیصلہ دینے سے انکار
پولیس تشدد کا نشانہ بننے والی ایک اور خاتون نے کہا کہ ‘ہم سب پہلی قطار میں تھے، وہ ہمیں جنسی طور پر ہراساں کر رہے تھے اور ہمیں لاتیں مارنے کی کوشش کی اور پیٹ پر مارا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ ہمیں دھکے دے رہے تھے حالانکہ ہم نے ان سے درخواست بھی کی کہ ایسا نہ کریں سب خواتین ہیں لیکن وہ نہیں رکے’۔
دہلی پولیس نے کئی خواتین کو زخمی کیا جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے، ایک اور خاتون نے اس حوالے سے کہا کہ ‘میرا نام چندا یادیو ہے، ہمارا پارلیمنٹ کی طرف مارچ تھا لیکن پولیس ہمارے ساتھ بدتمیزی کرنے لگی اور دھکے دینے لگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘زیادہ تر مرد پولیس اہلکاروں نے ہمیں دھکے دیے، جو لڑکی گرتی تھی تو پولیس ان کے ہاتھوں اور پیروں پر چڑھ رہی تھی اور بہت ساری خواتین کے پرائیویٹ حصوں کو انہوں نے چوٹیں ماری ہیں’۔
زخمی خاتون نے کہا کہ ‘جب میں گرفتاری کے بعد بس میں بیٹھی تھی تو پولیس نے آکر مجھے تھپڑ مارا اور خاتون اہلکار نے میرے کپڑے اٹھادیے، پورا میڈیا براہ راست چلارہا تھا لیکن خاتون اہلکار نے میرے کپڑے اٹھائے اور مجھے نوچا، گھونسے مارے، لاٹھی سے ہاتھ پر مارا اور حراست میں لے لیا’۔
خیال رہے کہ دہلی کے علاقے شاہین باغ میں بھارت کے متنازع قانون کے خلاف خواتین کا احتجاج گزشتہ ماہ سے جاری ہے جہاں ایک مرتبہ مسلح ہندو انتہا پسند نے فائرنگ کرکے خوف و ہراس بھی پھیلا دیا تھا۔
نئی دہلی میں 30 جنوری کو ایک ہندو قوم پرست نے انٹرنیٹ پر لائیو اسٹریمنگ کے دوران متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے یونیورسٹی طلبہ پر فائرنگ کرکے ایک طالبعلم کو زخمی کردیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج میں دہلی کا شاہین باغ ایک مرکزی مقام بنا ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں مظاہرین موجود ہیں۔
اس احتجاج کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ شاہین باغ پر سڑک کی بندش سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور سفر کے دوران ان کا قیمتی وقت، توانائی اور ایندھن ضائع ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں:بھارت مظاہرے: جامعہ ملیہ کے بعد شاہین باغ میں بھی مسلح نوجوان کی فائرنگ
گزشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ نے شاہین باغ میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دینے سے انکار کردیا تھا۔
شہریت قانون اور اس کے خلاف احتجاج
واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت: ہندو قوم پرست نے 'یہ لو آزادی' کہہ کر مظاہرین پر فائرنگ کردی
خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مرکز اس کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں 9 جنوری کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر سخت احتجاج کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا۔
اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع شہریت قانون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ممبئی میں ایک اجلاس منعقد کروایا تھا جس میں نامور فلمی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا تاہم ایک بھی اداکار یا اداکارہ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔