کورونا وائرس کی وبا دنیا کی معشیت کے لیے بھی مضر!
2020ء کے آغاز کے ساتھ رواں صدی کی تیسری دہائی کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ اس دہائی کے آغاز میں دنیا جو جن چیلنجز کا سامنا تھا، اب ان میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
ماحولیاتی تغیرات کے باعث 2020ء کے آغاز پر جہاں دنیا کو شدید سرد موسم کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں ایران امریکا کشیدگی نے سفارتی محاذ پر گرمی دکھائی۔ یہ کشیدگی عالمی معیشت خصوصاً خلیجی تیل اور ایندھن پر انحصار کرنے والے چین اور اس کی معیشت کے لیے گہری تشویش کا باعث بنی۔
مگر ایران اور امریکا کی خاموش سفارتکاری رنگ لائی اور خطے میں جنگ کے خطرات معدوم ہوگئے۔ تاہم ان خطرات کی معدومی کے ساتھ ہی ایک ایسے خطرے نے سر اٹھانا شروع کردیا جس سے ایک مرتبہ پھر چین کی معیشت کے ساتھ دنیا بھر کے معاشی نظام کو بریک لگنے کا خدشہ پیدا ہوگیا اور اس خطرے کا نام کورونا وائرس ہے۔
سننے میں بظاہر یہ عجیب لگتا ہے کہ ایک وائرس کا بھلا دنیا کی معیشت سے کیا تعلق، لیکن تعلق ہے اور گہرا تعلق ہے، جس کے بارے میں آپ کو آگے جاکر علم ہوجائے گا۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے اس نئے وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات نے دنیا بھر میں خوف کی فضا پیدا کردی ہے۔
دسمبر سے پھیلنے والا یہ وائرس 900 سے زائد انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ چین کے شہر ووہان کی 1 کروڑ سے زائد آبادی کو ان کے گھروں میں مقید کرکے شہر کو قرنطینہ کردیا۔ ملکی و عالمی میڈیا کی نظریں اس وائرس سے متعلق ہر ایک خبر پر گڑی ہوئی ہیں۔
چند ہفتے قبل کراچی میں تعینات چینی قونصل جنرل نے کراچی پریس کلب کے عہدیداران کو چائے پر مدعو کیا تو اس محفل میں بھی کورونا وائرس کے اثرات پر بات چیت ہوئی۔ چینی قونصل جنرل نے پُراعتماد انداز میں یہ کہا کہ ان کی قوم اس بیماری سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کر لے گی۔ حکومت نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے چین کے نئے قمری سال کی تقریبات کو بھی منسوخ کردیا ہے۔
دسمبر سے منظرِعام پر آنے والے کورونا وائرس کی وبا دنیا کے دیگر ملکوں کا رخ کر رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے 30 جنوری کو کورونا وائرس کے خلاف الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وبا دنیا بھر میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل سکتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ پوری دنیا اس معاملے کو سنجیدہ لے اور اس وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر وسائل کو استعمال میں لایا جائے۔
اسٹاک مارکیٹس کو دھچکا
کورونا وائرس سے بڑھتی ہلاکتوں کی وجہ سے پہلا معاشی دھچکا اسٹاک مارکیٹس کو لگا۔ سرمایہ کاروں کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں یہ وبائی مرض چین سمیت دنیا کی معیشت کو ہی نہ نگل جائے۔ اس خوف کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے پھیلنے والی بیماری سارس کی وجہ سے بھی معیشت بھاری نقصان کا سامنا کرچکے ہے۔
چین دنیا کا معاشی لیڈر اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، چنانچہ چین کے حالات کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے، اور یہ اثرات نظر بھی آرہے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی معیشت کا دارومدار چینی معیشت پر ہے کیونکہ دنیا بھر کی مصنوعات سازی کی 20 فیصد پیداوار چین میں ہوتی ہے اور چین عالمی معیشت کا پانچواں حصہ ہے۔
امریکی اسٹاک مارکیٹ کے تمام انڈیکس کا اختتام 7 فروری بروز جمعہ کو ہوا۔ اس دن تقریباً تمام ہی اسٹاک مارکیٹس مندی پر بند ہوئیں۔ انڈیکس ڈاؤ جونز 277 پوائنٹس، نسڈیک51 پوائنٹس اور ایس اینڈ پی کا اختتام 18پوائنٹس کے ساتھ منفی رجحان پر ہوا۔
اسٹاک مارکیٹ میں ان کمپنیوں کے حصص میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی جو چین سے بڑے پیمانے پر کاروبار کرتی ہیں، ان میں سرِفہرست ایپل کمپنی ہے جس کے حصص کی قیمت 1.36فیصد گرچکی ہے۔ سٹی گروپ، جنرل الیکٹرک بھی منفی زون میں بند ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہانگ کانگ 89 پوائنٹس، جاپان کا نکئی 45 پوائنٹس، جرمنی 60 پوائنٹس اور لندن کا ایف ٹی ایس ای انڈیکس 37 پوائنٹس کے ساتھ خسارے پر بند ہوا۔
اسٹاکس مارکیٹس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں ایندھن کی مارکیٹ پر بھی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ چین دنیا میں ایندھن کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اگر اس کی معیشت رکتی ہے جیسا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایک بڑے صوبے کو محدود کردیا گیا ہے اور دیگر علاقوں میں بھی دفاتر کے بجائے گھر سے کام کو ترجیح دی جارہی ہے تو ایسے میں ایندھن کی کھپت میں بھی کمی ہوتی ہے۔
2020ء کے آغاز پر جب ایران امریکا کشیدگی عروج پر تھی اس وقت خام تیل کی فی بیرل قیمت 70 ڈالر تک پہنچ گئی تھی تاہم گزشتہ جمعے کو یہ قیمت 55 ڈالر فی بیرل پر بند ہوئی ہے۔ ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پیٹرولیم کی عالمی قیمتوں میں مزید 5 ڈالر فی بیرل تک کی کمی ہوسکتی ہے۔
تیل کی طرح قدرتی گیس اور ایل این جی کی قیمتوں میں بھی عالمی سطح پر کمی دیکھی جارہی ہے۔ قدرتی گیس کو ایک ڈالر 86 سینٹس فی ملین برٹش تھرمل یونٹس (ایم بی ٹی یو) کی قیمت پر خریدا اور بیچا گیا جو قدرتی گیس کی تجارتی تاریخ میں سب سے کم قیمت ہے۔
سال کے آغاز سے اب تک گیس کی قیمت میں 15 فیصد کمی آئی ہے جبکہ ایل این جی کی قیمت 3 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو رہی، ایندھن کی قیمت میں اس کمی پر تیل پیدا کرنے والے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور روس میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
چین دنیا میں خام مال اور فاضل پرزہ جات کی فراہمی کا اہم مرکز ہے۔ چین میں بنے فاضل پرزہ جات کی بنیاد پر ہی دیگر ملکوں میں صنعتیں چلتی ہیں مگر چین میں پھیلتی وبا کے پیش نظر ملک کے دیگر کئی علاقوں میں موجود صنعتوں اور تجارتی مراکز کو بند کرنا پڑسکتا ہے۔ اگر صنعتوں کو طویل عرصے کے لیے بند کرنا پڑا تو اس سے چین کی معیشت کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت پر بھی نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اب امریکی کمپنی ایپل کو ہی لیجیے جس کے چین میں 10 ہزار ملازمین موجود ہیں۔ ایپل یوں تو امریکی برانڈ ہے جو موبائل فونز، ٹیب اور کمپیوٹرز سمیت ٹیکنالوجی سے متعلق دیگر آلات تیار کرتا ہے، مگر فاضل پرزہ جات کی فراہمی میں چین کا اہم ترین کردار ہے۔ ایپل نے چین سے اپنے غیر ملکی ایگزیکٹو کو امریکا منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اسٹاف کو دفاتر آنے سے منع کردیا ہے۔
اگر چین میں ایپل کی فیکٹری طویل عرصے تک بند رہے گی تو امریکا میں ایپل کو اپنے نئے موبائل فونز اور دیگر آلات کو متعارف کروانے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں آٹو موبائل، الیکٹرانکس اور کیمیکلز سمیت مختلف مصنوعات کی صنعتیں متاثر ہوں گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ امریکا سمیت متعدد ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کا انحصار چین کی معیشت پر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی معیشت میں گراوٹ سے عالمی معاشی نظام میں گراوٹ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے پہلے 2004ء سے 2009ء کے دوران برڈ فلو (H5N1) کے وائرس سے 30 ارب ڈالر، 2006ء سے 2011ء سے پھیلنے والے سوائین فلو (H1N1) سے 50 ارب ڈالر جبکہ ایبولا وائرس سے 10ارب اور ذیکا وائرس سے تقریباً 12ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
2020ء میں چین کی ترقی کی شرح پہلے ہی گراوٹ کا شکار تھی اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ چینی معیشت 6.1 فیصد کی شرح سے نمو پائے گی جو گزشتہ 3 دہائیوں کی کم ترین شرح تھی، اور اب وبا کے بعد تو صورتحال مزید بُری ہوتی نظر آرہی ہے۔
کورونا وائرس سے چینی معیشت کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے؟
کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے دنیا بھر میں اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ سے چین کی معیشت کو کس قدر نقصان ہوگا اور عالمی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی سرمایہ کار ادارے اسٹینڈرز اینڈ پورز کے مطابق چین رواں سال اپریل تک کورونا وائرس پر قابو پاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو چینی معیشت 2020ء کے آخر تک دوبارہ سے مستحکم ہوجائے گی جبکہ2021ء میں ایک بار پھر بحالی کے سفر پر گامزن ہوسکتی ہے۔
امریکی سرمایہ کار بینک گولڈ مین ساشز کا کہنا ہے کہ چین کے جی ڈی پی کی شرح 5.5 فیصد رہے گی جبکہ اس کے جی ڈی پی کا ہدف 5.9 فیصد رکھا گیا تھا۔ اگر یہ وبائی مرض طوالت اختیار کرتا ہے تو پھر چینی معیشت کی نمو 5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ بینک کے مطابق چین میں وائرس پھیلنے سے امریکی معیشت کو 0.4 فیصد کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ امریکی پیداوار کی شرح 1.7فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
وبائی بیماری سے صرف چین ہی نہیں بلکہ امریکا بھی متاثر ہوگا۔ امریکا آنے والے سیاحوں میں سے 7 فیصد سیاح چینی ہیں۔ جہاز ٹکٹس، ہوٹلوں کے کرایوں، ریسٹورینٹس اور شاپنگ اخراجات کی صورت میں فی فرد اوسطاً 6 ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے۔ امریکا چینی سیاحوں سے سالانہ تقریباً 5 ارب 80 کروڑ ڈالر تک کماتا ہے۔ اس وبائی مرض کی وجہ سے اس آمدنی میں کمی کا خدشہ ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں، شہری آبادی میں اضافے، قابلِ استعمال پانی کی قلت اور سیوریج کے نظام میں خرابی، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب تباہ کن وبائی امراض کے پھیلنے کے امکانات کو روز بروز بڑھاتے جا رہے ہیں۔ وبائی امراض سے متاثرہ ملکوں میں طبّی مسائل کے ساتھ ساتھ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی، غربت اور بے روز گاری جیسے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر وبائی امراض کمزور یا شورش زدہ ریاستوں میں پھیل جائے تو اس پر کنٹرول پانا بہت ہی کٹھن ثابت ہوگا۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ وبائی بیماریوں سے عالمی معیشت کو اتنا ہی خطرہ ہے جنتا 2008ء میں آنے والے عالمی مالیاتی بحران سے، وہی بحران جس نے دنیا بھر میں اپنے شدید منفری اثرات مرتب کیے تھے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے 2050ء تک کم اور متوسط آمدنی والے ملکوں کو 9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ وبائی امراض سے بچاؤ کا انتظام کوئی بھی ملک انفرادی طور پر نہیں کرسکتا ہے۔ اس میں باہم مربوط، صحت عامہ کے تحفظ سے متعلق نکتہ نظر کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ تمام ممالک کو امراض کی نگرانی، تشخیصی عمل میں بہتری لانا ہوگی اور اس سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا۔
چین میں وبائی مرض کی پھوٹ پاکستانی معیشت کے حق میں بھی نہیں
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ چین ہمارا قریبی دوست اور پڑوسی ملک ہی نہیں بلکہ ہماری معیشت کا بڑی حد تک انحصار چین پر ہی ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان براہِ راست تجارت کا حجم 15ارب 60 کروڑ ڈالر ہے، جس میں سے پاکستان تقریباً 2 ارب ڈالر کی مصنوعات چین کو فروخت کرپاتا ہے جبکہ چین پاکستان سے مچھلی، سمندری خوراک، مولیسس، غذائی اجناس، مشروبات، نمک، سلفر، کپاس، تانبہ، خام چمڑہ اور ملبوسات کی خریداری کرتا ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین آزاد تجارتی معاہدے پر نظرثانی کے بعد سے توقع ہے کہ پاکستان سے چین کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
سی پیک منصوبے کی وجہ سے بھی دو طرفہ تجارتی تعلقات کو تقویت پہنچے گی۔ چین کی جانب سے سی پیک کے تحت 15 ارب روپے کی براہِ راست سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ چین کے لگائے گئے منصوبوں کی مالیت 29 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں چین میں پیدا ہونے والی کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے پاکستان بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے اور عوامی رابطے میں اضافے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض سے بچاؤ کی تدابیر بھی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
چین میں صدی کے آغاز سے اب تک 2 بڑے وبائی امراض پھیل چکے ہیں اور اگر پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری فعال ہوتی ہے تو دونوں طرف کی آبادی میں امراض کے منتقل ہونے کے خدشات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس حوالے سے پاکستان کو اپنی تیاری مکمل رکھنا ہوگی اور اپنے نظامِ صحت کو اس قدر مضبوط کرنا ہوگا کہ وہ کسی بھی وبائی مرض سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اس حوالے سے پاکستان میں ‘نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ قائم ہے۔ یہ اتھارٹی سال 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد قائم کی گئی تھی، اور اس کا کام کسی بھی ناگہانی قدرتی آفات یا بڑے حادثات کی صورت میں فوری ریلیف فراہم کرنا ہے۔
اگر اس ادارے کو وبائی امراض سے بچاؤ کا شعبہ بھی دے دیا جائے تو یہ ایک بہتر اقدام ثابت ہوگا۔ پاکستان کو وبائی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا تاکہ اپنے معاشرے، معیشت اور ریاست کے ڈھانچے کو وبائی امراض کے پھوٹنے سے بچایا جاسکے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔