ایدھی فاؤنڈیشن نے چین میں پھنسے طلبہ کو لانے کے لیے وزیرخارجہ سے اجازت طلب کرلی
ایدھی فاؤنڈیشن نے چین کے شہر ووہان میں پھنسے پاکستانی طلبہ کو وطن واپس لانے کے لیے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے اجازت طلب کرلی۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے نام ایک خط میں ایدھی فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ ادارے کا نمائندہ طلبہ سے رابطے میں ہے اور چین میں پھنسے ہوئے طلبہ ‘ذہنی طور پر پریشان اور اضطراب میں ہیں’۔
ایدھی فاؤنڈیشن نے وزیرخارجہ کو خط میں لکھا ہے کہ ‘طلبہ کو غذائی قلت کا بھی سامنا ہے اور ان میں سے اکثریت طلبہ کی ایسی ہے جو وائرس سےمتاثر نہیں ہوئے ہیں اور ہم انہیں بچا سکتے ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں:سینیٹ: اپوزیشن کا چین میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کا مطالبہ
خیال رہے کہ چین کا شہر ووہان میں کورونا وائرس نے 800 سے زائد شہریوں کی جان لے لی تھی اور اب تک 37 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ شہر 23 جنوری سے لاک ڈاؤن ہے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا خط میں کہا گیا ہے کہ امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جرمنی اور بھارت سمیت دیگر ممالک نے ووہان سے اپنے شہریوں کو واپس بلالیا ہے۔
فیصل ایدھی نے مذکورہ ممالک کی مثال دیتے ہوئے وزیرخارجہ سے درخواست کی ہے کہ ‘پاکستانی طلبہ کو پاکستان واپس لانے کی اجازت دی جائے اور وائرس ختم ہونے تک طلبہ کو قرنطینہ کرنے کے لیے جگہ بھی بتادیاجائے’۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اجازت ملتے ہی طلبہ کو پاکستان واپس لانے کے لیے پروازوں کے انتظامات کے لیے فاؤنڈیشن ایئرلائن سے رابطہ کرے گی۔
یاد رہے کہ چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کے بعد پاکستان نے 29 جنوری کو چین کے لیے اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کردی تھیں تاہم تین روز بعد بحال کردیا تھا اور چین میں موجود پاکستانیوں کی وطن واپسی شروع ہوگئی تھی۔
مزید پڑھیں:چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرگئی
چین سے پاکستانیوں کی واپسی کا عمل شروع ہونے کے باوجود ووہان میں موجود طلبہ کو واپس نہیں لایا گیا تھا اور اب تک وہیں موجود ہیں۔
نجی ٹی وی جیو نیوز نے ایک رپورٹ میں چین میں تعینات پاکستان کی سفیر نغمانہ ہاشمی کے حوالے سے کہا تھا کہ اجازت نہ ہونے کے باعث وہ ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ تک نہیں پہنچ سکتیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس حوالے سے یقین دلایا تھا کہ طلبہ اور ان کے اہل خانہ کو درپیش صورت حال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘چین میں موجود میرے پیارے طلبہ اور ان کے خاندان کے اراکین! ہم صورت حال پر تندہی سے اعلیٰ سطح پر تبادلہ خیال کررہے ہیں اور کورونا وائرس کو دیکھتے ہوئے ہم بہترین فیصلہ کریں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یقین رکھیے کہ آپ ہمارے اپنے ہیں اور ہم خیال رکھ رہے ہیں’۔
خیال رہے کہ چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرگئی ہے اور متاثرین کی تعداد 37 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ چین سے باہر دیگر ممالک میں بھی کورونا وائرس سے ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں اور سب سے پہلے فلپائن میں چین کے شہری کی کورونا وائرس کے باعث ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔
کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس ایک عام وائرل ہونے والا وائرس ہے جو عام طور پر ایسے جانوروں کو متاثر کرتا ہے جو بچوں کو دودھ پلاتے ہیں تاہم یہ وائرس سمندری مخلوق سمیت انسانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
اس وائرس میں مبتلا انسان کا نظام تنفس متاثر ہوتا ہے اور اسے سانس میں تکلیف سمیت گلے میں سوزش و خراش بھی ہوتی ہے اور اس وائرس کی علامات عام نزلہ و زکام یا گلے کی خارش جیسی بیماریوں سے الگ ہوتی ہیں۔
کورونا وائرس کی علامات میں ناک بند ہونا، سردرد، کھانسی، گلے کی سوجن اور بخار شامل ہیں اور چین کے مرکزی وزیر صحت کے مطابق 'اس وبا کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے، میں خوفزدہ ہوں کہ یہ سلسلہ کچھ عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے اور کیسز کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرسکتا ہے؟
وائرس کے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد چین کے کئی شہروں میں عوامی مقامات اور سینما گھروں سمیت دیگر اہم سیاحتی مقامات کو بھی بند کردیا گیا تھا جب کہ شہریوں کو سخت تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ متعدد شہروں کو قرنطینہ میں تبدیل کرتے ہوئے عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نئے قمری سال کی تعطیلات میں اضافہ کر کے تعلیمی اداروں اور دیگر دفاتر کو بند رکھا گیا تھا۔
واضح رہے کسی کورونا وائرس کا شکار ہونے پر فلو یا نمونیا جیسی علامات سامنے آتی ہیں جبکہ اس کی نئی قسم کا اب تک کوئی ٹھوس علاج موجود نہیں مگر احتیاطی تدابیر اور دیگر ادویات کی مدد سے اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔