نئے کورونا وائرس کا ماخذ چمگادڑوں کو مانا جاتا ہے، مگر یہ پرندے ووہان کی اس سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت نہیں کیے جاتے، جسے اس وبا کے پھیلاﺅ کا ابتدائی مرکز مانا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ چین سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 900 سے زائد جبکہ 40 ہزار سے زائد بیمار ہوچکے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے ایک جینیاتی تجزیے سے ثابت ہوا تھا کہ انسانوں میں پھیلنے والے وائرس کا جینیاتی سیکونس چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس سے 96 فیصد تک ملتا جلتا ہے۔
مگر اس وقت یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ کونسا جانور سے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا کیونکہ ایسے متعدد جاندار ہیں جو وائرسز کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں اور لگ بھگ کورونا وائرسز کی تما اقسام انسانوں میں جنگلی حیات سے پھیلے۔
مگر ساﺅتھ چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی کی تحقیق میں جنگی جانوروں کے ایک ہزار سے زائد نمونوں کے تجزیے سے دریافت ہوا کہ پینگولین میں وائرس کے جینوم سیکونس انسانی مریضوں میں موجود وائرس ے 99 فیصد تک مماثلت رکھتا ہے۔
چینی سرکاری خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق محققین کا کہنا تھا کہ اس مطلب ہے کہ پینگولین ممکنہ طور پر کورونا وائرس کا عارضی میزبان ہوسکتا ہے۔
اس جانور کو چین اور چند دیگر ممالک میں کھایا جاتا ہے جبکہ اس کی پرت جیسی کھال کو روایتی ادویات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ممکنہ عارضی میزبان کے حوالے سے معلومات سے نئے کورونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول میں مدد مل سکے گی۔
اس تحقیق کا مقالہ فی الحال شائع نہیں ہوا تو مزید تفصیلات کا علم بھی نہیں ہوسکا ہے، تاہم دیگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جینیاتی تجزیہ کافی حد تک قابل قبول ہے مگر جب تک مکمل نتائج شائع نہیں ہوتے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
سڈنی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے وائرسوں کے ماہر ایڈورڈ ہولمز کے مطابق یہ انتہائی دلچسپ جائزہ ہے، اگرچہ ہمیں مزید تفصیلات کی ضرورت ہے، مگر یہ قابل فہم ہے کیونکہ حال ہی میں دیگر ڈیٹا میں بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ پینگولین ہی ممکنہ طور پر اس نئے وائرس کے پھیلاﺅ سے جڑے ہیں۔