پاکستان کیا کرے؟ کشمیر کو مقدم رکھے یا اپنے معاشی پہلوؤں کو؟
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تحت وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونے سے قبل او آئی سی رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے وزارت خارجہ کے افسران کی میٹنگ منعقد کرنے جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی ایما پر اس میٹنگ کے اعلامیے میں مسئلہ کشمیر کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
ملائیشیا کے حالیہ دورے میں وزیرِاعظم عمران خان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہوں نے گزشتہ برس دسمبر میں منعقدہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں اس لیے شرکت نہیں کی کیونکہ پاکستان کے چند دوست ممالک اس ’غلط فہمی‘ کا شکار ہوگئے تھے کہ یہ اجلاس مسلم دنیا کو تقسیم کرسکتا ہے۔
وہ یہاں سعودی عرب کا حوالہ دے رہے تھے جہاں انہیں سعودی ولی عہد نے دورے کی دعوت دی اور ایران، قطر اور ترکی کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس سے دُور رہنے کی ترغیب دی جسے ریاض مسلم ممالک پر سعودی اثر و رسوخ کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی جو مسلم دنیا میں 2 ابھرتے سیاسی اتحادوں کے درمیان اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کو بھی اس سے نقصان ہوا ہے۔ ملک کے زمینی، اقتصادی اور اسٹریٹجک مسائل نے پاکستان کے ہاتھ باندھ دیے ہیں، اور اس کے لیے کسی ایک بلاک کی مکمل حمایت یا پھر اسے ناراض کرنا بہت ہی مشکل کردیا ہے۔