پاکستان

ایف آئی اے نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے 16 سرکاری افسران کو طلب کرلیا

حکومت نے دھوکا دہی سے بی آئی ایس پی فنڈز سے مستفید ہونے والے 2 ہزار سے زائد ملازمین کے کیسز ارسال کیے تھے، رپورٹ

لاہور: وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) فنڈز کے مبینہ غلط استعمال میں ملوث سرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا اور اس سلسلے میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 16 مشتبہ افسران کو طلب کرلیا۔

پنجاب زون ون کے ڈائریکٹر محمد رضوان کی سربراہی میں ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم کو 2010 سے 2018 کے درمیان بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز میں سرکاری عہدیداران کے کردار کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔

ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز کے غلط استعمال کے الزام میں بی ایس-17 سے بی ایس-20 کے 16 افسران کو طلب کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ان افسران کے اکاؤنٹس، اثاثوں اور غیر ملکی اکاؤنٹس سمیت ان کے شریک حیات کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تحقیقات بھی کی جائیں گی'۔

مزید پڑھیں: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے 4 سرکاری افسران برطرف

عہدیدار نے کہا کہ ان افسران کو بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے آئندہ ہفتے طلب کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے اپنی تحقیقات کی روشنی میں بی ایس -17 اور اس سے زائد رینک کے افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے گی جو آئندہ چند ماہ میں مکمل ہوجائے گی۔

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے دھوکہ دہی سے بی آئی ایس پی فنڈز سے مستفید ہونے والے 2 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کے کیسز ایف آئی اے کو ارسال کیے تھے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ حکومت نے بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے سرکاری افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی اور فنڈز کی ریکوری کے لیے تمام چیف سیکریٹریز اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھی لکھا تھا۔

ایف آئی اے سرکاری افسران اور ان کی مدد کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات درج کرے گی۔

حکومتی تجزیے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز سے مستفید ہونے والے افراد میں ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد ایسے تھے جو خود یا ان کے شریک حیات سرکاری ملازم تھے۔

غیر قانونی طور پر مستفید ہونے والے ایک لاکھ 40 ہزار افراد کا بڑا حصہ گریڈ ایک تا 16 کے سرکاری ملازمین پر مشتمل تھا جبکہ دیگر 2 ہزار 37 افراد گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران تھے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ 'یہ نظام اور اس کے قوانین میں شفافیت کی کمی ہے کہ سالوں تک فراڈ ہوتا رہا اور افسران رقم حاصل کرتے رہے'۔

یہ بھی پڑھیں: انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید افسران کے نام منظر عام پر لائے جائیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ دھوکہ دہی سے بی آئی سی ایس پی سے مستفید ہونے والے گریڈ 17 اور اس سے زائد کے سرکاری افسران یا جن کی شریک حیات نے اس سے فائدہ حاصل کیا ان کی تعداد آزاد کشمیر میں 9، گلگت بلتستان میں 40، بلوچستان میں 5 سو 54، خیبرپختونخوا میں 3 سو 42، پنجاب میں ایک سو ایک اور سندھ میں 9 سو 38 ہے۔

علاوہ ازیں بی آئی ایس پی کے لیے کام کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے گریڈ ایک سے 16 کے 39 ملازمین جبکہ گریڈ 17 اور اس سے زائد کے 4 افسران کو برطرف کردیا گیا، اسی طرح وفاقی حکومت کے 48 ملازمین کو بھی برطرف کیا گیا۔

2016 میں جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز جولائی 2008 میں کیا گیا تھا جو پاکستان میں سماجی تحفظ کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے اور اس سے 54 لاکھ افراد مستفید ہورہے تھے۔


یہ خبر 9 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ہمیں معلوم ہے کہ سندھ میں چینی کہاں ذخیرہ ہورہی ہے، فردوس عاشق اعوان

وزیراعظم کے بھانجے کی ضمانت کے خلاف پنجاب حکومت کا عدالت عالیہ سے رجوع

افغانستان میں فوجی اڈے پر فائرنگ، 2 امریکی فوجی ہلاک