کشمیر میں بی جے پی کی پریشانی قریب آگئی؟


راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، 1951ء میں وجود میں آنے والے اس کے سیاسی حلقے جنا سنگھ اور اس کی جانشیں یعنی موجودہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گزشتہ 70 برسوں سے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کی ’منسوخی‘ کے لیے شور مچاتے رہے۔
وہ آئین سے اس آرٹیکل کے خاتمے سے کم پر کسی بھی چیز کے لیے راضی نہیں تھے۔ کشمیر کو خودمختار حیثیت دینے کے لیے مرتب کردہ اس شق کے شریک خالق جواہر لال نہرو نے 1964ء میں اپنی موت سے پہلے تک آرٹیکل 370 کو برائے نام قانون تک محدود کردیا تھا۔
1949ء میں آئین ساز اسمبلی کا اختیار کردہ آرٹیکل 370 کوئی عام قانون نہیں تھا۔ یہ آرٹیکل ایک طرف 1949ء میں مئی سے اکتوبر یعنی 5 ماہ تک وزیرِاعظم نہرو اور ان کے نائب ولبھ بھائی پٹیل اور دوسری طرف کشمیر کے وزیرِاعظم شیخ محمد عبداللہ اور ان کے بااعتماد ساتھی اور ممتاز وکیل مرزا محمد افضل بیگ کے مابین مذاکراتی عمل کے ذریعے طے پانے والے آپسی سمجھوتے کا پیش خیمہ تھا۔
مگر 5 اگست 2019ء کو وزیرِاعظم نریندر مودی نے جو اقدام اٹھایا وہ آرٹیکل 370 کی منسوخی تک ہی محدود نہیں بلکہ کشمیر کی آئینی اور سیاسی تباہی کے مترادف ہے۔
اس منسوخی نے نہ صرف کشمیر سے اس کی خودمختار حیثیت چھین کر اسے ’یونین ٹیریٹری‘ کا حصہ بنا دیا بلکہ وادئ کے پورے سیاسی منظرنامے کو بُری طرح سے بدل رکھ دیا گیا۔
کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں، وہاں کی 2 اہم سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس (این سی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) میں اختلافات پیدا کرنے کی سازشوں، بی جے پی کے خوشامدیوں اور اس کی جی حضوری کرنے والوں پر مشتمل ایک نئے سیاسی محاذ کے قیام اور جموں کو برتری دینے پر زور و شور سے کام جاری ہیں۔
بی جے پی کے خوشامدی ٹولے میں پی ڈی پی کے 2 سینئر رہنما بھی شامل ہیں جبکہ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کو جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ یہ ساری مشق اس اندازے پر کی گئی کہ کشمیر کے رہنما، پریس اور سیاسی طبقہ بی جے پی کے منصوبوں پر سرخم تسلیم کرلیں گے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر پوری وادئ کشمیر میں خوف و ہراس سے بھرا ماحول پیدا کیا گیا۔
بی جے پی کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کہ بالآخر کشمیر میں سارے لوگ ان کے عزائم کے آگے جھک جائیں گے اور ہار جائیں گے۔ بی جے پی کے اس اندازے کی بھرپور عکاسی کشمیریوں کے بارے میں اس کے رہنماؤں کی کمزور رائے کرتی ہے۔
سیاستدانوں کو اس لیے جیل میں بند نہیں کیا گیا تھا کہ وہ کوئی جرم کرنے جا رہے تھے بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔ انہیں اس خوف کے پیشِ نظر حراست میں لیا گیا کہ کہیں وہ بی جے پی حکومت کی اس بدنیت اسکیم کو مسترد نہ کردیں اور عوام کو بھی اپنی اس رائے کا ساتھی منا لیں۔ وہ کسی بھی طور پر دہشتگرد نہیں تھے۔
پی ڈی پی اور این سی کے رہنما جب کشمیر میں بطور وزیراعلیٰ صاحبِ اقتدار تھے تو اس وقت انہوں نے مسلح بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی دہلی کی سرکار کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ دراصل بی جے پی کی اس اسکیم کو جب عوام اور دیگر تمام حلقوں نے مسترد کردیا تو حکمراں جماعت ان سیاسی قوتوں کو سیاسی سرگرمی سے جبری طور پر دُور کرنے پر مجبور ہوگئی۔