نقطہ نظر

فضلہ اب فضلہ نہ رہا، قیمتی سرمایہ بن گیا

بائیو گیس پروجیکٹ، کراچی کو مسابقتی، مساوی اور ماحولیاتی استحکام والے مرکزی شہر میں تبدیل کرنے کے وژن کا ایک حصہ ہے۔

کراچی کی مویشی کالونی کے رہائشیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ 4 دہائیوں سے جس گندگی میں زندگی گزار رہے ہیں، اب وہی گندگی آمدنی کے ساتھ ساتھ توانائی کا ذریعہ بھی بن جائے گی۔

اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کا ڈیری سے متعلق کاروبار سنبھالنے والی 35 سالہ یاسمین برکت کہتی ہیں کہ ‘گوبر ہماری سڑکوں اور گلیوں سے ختم ہوجائے گا یہ جان کر میں بہت خوش ہوں’۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اس منصوبے سے وابستہ اور بھی فوائد ہیں جیسے مکھیوں سے جان چھوٹ جائے گی، ہمارے مویشیوں میں پھیلنے والی بیماریاں کم ہوجائیں گی، گوبر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صفائی کے لیے پانی کا استعمال بھی کم ہوجائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ امید ہے کہ سستی بجلی بھی ملے گی’۔

یاسمین کے پاس کوئی 100 گائیں، بھینسیں اور بکریاں ہیں۔ دیکھنے میں تو یہ ایک بڑی تعداد لگتی ہے لیکن یہ اس ریوڑ کا چوتھائی حصہ ہے جو ان کے والد سنبھالتے تھے۔

ملیر کی باحجاب، یاسمین برکت اپنے شوہر اور 8 مزدوروں کے ہمراہ ہنسی خوشی فارم کے انتظامات سنبھال رہی ہیں۔ وہ کراچی میں امبالا سویٹس اور بیکرز کی دکانوں کو ہر روز 374 لیٹر دودھ بیچتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’فارم کی صفائی کی غرض سے بہت زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے جانور بیمار ہوکر مر جائیں۔’

یہ سارا گند نالوں سے گزرتا ہوا بلآخر سیدھا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ان کی امیدیں اب مذبحہ خانے سے ملحقہ زمین کے ایک بڑے حصے پر بننے والے بائیو گیس پلانٹ کے منصوبے سے وابستہ ہیں جو 2 سال میں مکمل ہوگا۔

جس بات سے وہ ناواقف ہیں وہ یہ کہ ان کے مویشیوں کا گوبر کراچی بریز ریڈ لائن کی 213 بسوں کو چلانے میں کارآمد ہوگا۔ یہ ان 5 بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) لائنوں میں سے ایک ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ کے مناسب انتظام سے محروم شہرِ کراچی کو اگلے 2 سالوں میں ملے گا۔

سٹی فیول گیس کمپنی کے ڈائریکٹر مسعود عالم فاروقی کہتے ہیں کہ جتنے عرصے مین یہ بس سروس شروع ہوگی، اتنے عرصے میں بائیو گیس پلانٹ بھی کام کرنا شروع کردے گا۔

اس کے علاوہ پروجیکٹ دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سستے اور صاف بس نیٹ ورک سے سیارے میں حرارتی اخراج کو 30 برسوں کے دوران 26 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر کم کردیا جائے گا۔

گیس بنانے کا عمل

گائے کی کھاد ایک ہاضمے میں ڈال دی جائے گی جو گوبر بیکٹیریا کے ساتھ مل کر مختلف گیسیں پیدا کرے گا جن میں سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، آکسیجن اور میتھین شامل ہیں۔

مسعود عالم بتاتے ہیں کہ منصوبہ یہ ہے کہ میتھین گیس کو قدرتی گیس سے الگ کرکے مخصوص بس ڈپوں کے سی این جی ٹنکیوں تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ان خصوصی بسوں میں چھتوں تک گیس کی ترسیل کے لیے سلنڈر لگے ہوں گے۔ اسی طرح کی بسیں ڈنمارک، سویڈن، اٹلی اور ترکی میں عوامی نقل و حرکت کے نظام کا ایک حصہ ہیں۔ حال ہی میں یہ نظام دہلی میں بھی متعارف کروایا گیا ہے۔

سی این جی بسیں کئی سال پہلے کراچی میں متعارف کروائی گئی تھیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکا۔ تاہم، اس بار صوبائی و مرکزی حکومتیں اور کثیرالجہتی ایجنسیاں اس منصوبے کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مسعود عالم نے یہ بھی بتایا کہ بایومیتھین قدرتی گیس کے مقابلے میں کافی حد تک سستا ہوگا اور سرکاری سبسڈی سے پاک قیمت کا یہ فرق مسافروں کو فائدہ پہنچائے گا۔ بس جب تک مویشی ہیں، ایندھن کی محفوظ اور طویل مدتی فراہمی جاری رہے گی۔

صاف توانائی اور ماحولیاتی حل فراہم کرنے والی انرجی سروس کمپنی دوام کے چیف ایگزیکٹو افسر سلمان طارق کہتے ہیں کہ ‘ہمیں خوشی ہے کہ مشیر اس بار جانوروں کی تعداد اور بائیو گیس کی پیداوار سے متعلق صحیح اعداد و شمار پیش کررہے ہیں۔ بجلی کے بجائے ٹرانسپورٹ کے لیے ایندھن کے استعمال کو متوازن کرنے کا اقدام اس منصوبے کو قابلِ عمل بنائے گا’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘دیکھنا صرف یہ ہوگا کہ جب بھی پلانٹ نے حقیقت میں کام کرنا شروع کیا تو پلانٹ سے خارج ہونے والے مائع سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔

ایک دہائی قبل 'کے الیکٹرک' میں کام کرتے ہوئے سلمان طارق نے بائیو گیس پروجیکٹ پر بڑے پیمانے پر کام کیا تھا، تب اسی فیڈ اسٹاک کا استعمال کرتے ہوئے فضلے سے توانائی کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بار متعدد وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کے چلنے کے امکانات بہتر ہیں۔

سلمان طارق کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی)، ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) اور فرانسیسی ڈیویلپمنٹ ایجنسی جیسے متعدد ادارے اس میں شامل ہیں۔ اس میں سیاسی عزم بھی ہے اور یہ گرین کلائمٹ فنڈ کے ساتھ رجسٹرڈ بھی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 'اس منصوبے کا کامیاب ہونا ضروری ہوگا، اور پچھلے کچھ سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ اس میں کامیابی کا امکان 5 سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ ہے'۔

اس منصوبے کو ‘تبدیلی’ قرار دیتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وزیرِاعظم کے مشیر ملک امین اسلم کہتے ہیں کہ نومبر 2019ء میں اس منصوبے کی رونمائی کے وقت ‘جشن منانے کی اصل وجہ’ یہی تھی۔

مویشی کالونی کی تبدیلی

مسعود عالم بتاتے ہیں کہ مویشی کالونی میں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار گائیں اور بھینسیں ہیں۔ پہلے مرحلے میں 7 کلومیٹر کے علاقے سے 4 ہزار ٹن گوبر کا 50 فیصد کالونی سے اٹھایا جائے گا۔

ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر عمر گجر کہتے ہیں کہ ‘ہم یہ گوبر مفت دیں گے اور اس کے بدلے ہمیں ایک صاف محلہ ملے گا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ بارش کے موسم میں یہاں کیا حال ہوتا ہے۔ نالے ابل پڑتے ہیں اور ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک گھٹنوں تک گہرے فضلے سے گزر کر جانا پڑتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی ہمارے پاس آیا اور ہم سے بات کی۔ ہمارے مسائل کے بارے میں پوچھا اور منظم ہونے میں ہماری مدد کی۔

2 ہزار ٹن گوبر سے پلانٹ میں 20 سے 23 ٹن میتھین روزانہ پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ مسعود عالم کہتے ہیں کہ ‘یہ ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہے اور اضافی پیداوار ’کے الیکٹرک‘ کو بیچی جاسکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ کے قریب نئی سبزی منڈی کی 2 ہزار سے زائد دکانیں اور 65 ایکڑ مویشی منڈی لانڈھی کیٹل کالونی سے زیادہ کچرا پیدا کرتی ہیں۔ مویشی کالونی کے انتخاب کی وجہ مسعود عالم یہ بتاتے ہیں کہ یہ علاقہ بڑے پیمانے پر نہیں پھیلا ہوا، فارم قریب قریب ہیں اور جانور چھوٹی جگہوں پر رہتے ہیں، اس لیے علاقے سے کھاد اٹھانا آسان ہے’۔

ایک اور ترغیب یہ ہے کہ تربیت کے بعد، کراچی بریز گوبر اٹھانے کے لیے فارم کے مزدوروں کی خدمات حاصل کرے گی۔ گجر کے مطابق، ‘اس سے انہیں اضافی ترغیب ملے گی’۔

اس کے علاوہ بنیادی ڈھانچے اور تعلیم کی ترقی میں سرمایہ کاری کے پروگرام بھی موجود ہیں۔

تعلیم سے جڑے اس پہلو کو شاکر عمر گجر زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری اگلی نسل اس پیشے کو جاری رکھنے سے گریزاں ہے، انہیں یہ سب گندا اور بدبودار لگتا ہے۔ لیکن اگر ایک انسٹیٹیوٹ تعمیر کیا جائے جہاں انہیں افزائشِ نسل کے لیے جدید تکنیک کے بارے میں سکھایا جائے، جہاں ایسی لیبارٹری قائم کی جائیں جہاں انہیں سکھایا جائے کہ مویشیوں کو بیماری سے کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے، ایسی خوراک بنائی جائے جو غذائیت سے بھرپور ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار نہ بن سکے‘۔

بی آر ٹی کے لیے رقم اور منصوبہ

تقریباً 50 کروڑ امریکی ڈالر کی لاگت پر مبنی بریز بی آر ٹی کے منصوبے کا مقصد مرکزی ریڈ لائن راہداری کا احاطہ کرنا ہے جو نمائش سے ملیر ہالٹ ڈپو تک 24.2 کلو میٹر سے زیادہ کے فاصلے پر محیط ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس روٹ پر روزانہ 3 لاکھ سے زیادہ افراد سفر کریں گے، جو پنجاب یا اسلام آباد کے بی آر ٹی میں مسافروں کی تعداد سے تین گنا زیادہ ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت اس پراجیکٹ میں وفاقی حکومت کی شراکت دار ہے اور منصوبے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کا حصہ ڈال رہی ہے۔ اے ڈی بی تقریباً 23 کروڑ امریکی ڈالر جبکہ اے آئی آئی بی اور ایجنسی فرانسیسی ڈی ڈیویلپمنٹ تقریباً 7 کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر (فی ایجنسی) کی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔

چونکہ اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موافقت اور تخفیف کے متعدد اقدامات شامل ہیں، چناچہ یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرانسپورٹ پروجیکٹ ہے جو گرین کلائمیٹ فنڈ سے بائیو گیس پلانٹ کے لیے تقریباً 4 کروڑ ڈالر اور گرین فیول کی ٹیکنالوجی کے لیے اضافی لاگت اور تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی اضافی گرانٹ حاصل کرے گا۔

اس منصوبے سے ہر سال 2 لاکھ 45 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی بچت ہوگی جبکہ 20 سال کی مدت میں 49 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ممکن ہوگا۔ اس میں سے بی آر ٹی پروجیکٹ کے (ماڈل شفٹ اور کارکردگی) کی وجہ سے 38 فیصد اخراج کی بچت اور اور 62 فیصد فضلے سے ایندھن بننے والی بائیو گیس منصوبے کی وجہ سے بچت ممکن ہوگی۔

ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ژاؤونگ یانگ نے پروجیکٹ کے افتتاح کے دوران کہا کہ ‘کراچی ریڈ لائن بی آر ٹی اور خاص طور پر بائیو گیس پروجیکٹ، کراچی کو مسابقتی، مساوی اور ماحولیاتی استحکام والے مرکزی شہر میں تبدیل کرنے کے لیے اے ڈی بی کے وژن کا ایک حصہ ہے’۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

ذوفین ابراہیم

ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔