پاکستان

ارشد ملک کی تعیناتی غیر قانونی ہے،فوری برطرف کیا جائے،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ

پی آئی اے سربراہ کی تعیناتی کیلئے ایس ای سی پی اور فورسز کے ڈیپوٹیشن قوانین کو ملی بھگت سے استعمال کیا گیا، رپورٹ
|

آڈیٹر جنرل پاکستان نے ایئر مارشل ارشد ملک کی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) میں چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کے عہدے پر تعیناتی کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے ان کی فوری برطرفی کی سفارش کی ہے۔

آڈیٹر جنرل فار پاکستان نے پی آئی اے کی آڈٹ رپورٹ جاری کردی جس میں ایئر مارشل ارشد ملک کی قومی ایئرلائن میں سی ای او کے عہدے پر تعیناتی کو بدنیتی، ذاتی پسند، قواعد کے خلاف اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی پی آئی اے میں تعیناتی کے لیے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) اور فورسز کے ڈیپوٹیشن قوانین کو ملکی بھگت سے استعمال کیا گیا جو شفافیت کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ارشد ملک کی خلاف ضابطہ تعیناتی کی تحقیقات کسی آزاد ادارے سے کرائی جائے، ایوی ایشن ڈویژن بھی اس غیر قانونی تقرری کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرے بالخصوص بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کوتاہی کا تعین کیا جائے کہ جب مشرف رسول سیان کے کیس میں سپریم کورٹ نے واضح ہدایات دی تھیں تو اس کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔

آڈیٹر جنرل نے اپنی طویل رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر قواعد و ضوابط کے مطابق ایئر مارشل ارشد ملک انٹرویو بورڈ میں پیش ہوتے تو انہیں پاک فضائیہ سے مستعفی ہونا پڑتا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے نے آڈیٹر جنرل کے عملے کے ساتھ تعاون نہیں کیا اس لیے قطعی طور پر نہیں بتایا جاسکتا کہ ارشد ملک نے پی آئی اے سے کتنا مالی فائدہ ناجائز طور پر اٹھایا ہے۔

تاہم ایک تخمینے کے مطابق 8 ماہ کے دوران یہ فائدہ تقریباً 30 لاکھ روپے ہے جو ان سے واپس لینے کی سفارش کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بہتر ہے پی آئی اے کو پاکستان ایئرفورس کے حوالے کردیں، چیف جسٹس

آڈیٹر جنرل نے یہ بھی کہا ہے کہ قواعد کے مطابق قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر کی مدت ملازمت کے ختم ہونے سے تین ماہ قبل اخبارات میں اس اسامی کے لیے درخواستیں طلب کی جانی چاہیئں، لیکن ایئر مارشل ارشد ملک کے کیس میں اس کے بلکل الٹ کیا گیا۔

رپوٹ کے مطابق ارشد ملک کو 26 اپریل 2019 کو پہلے ایک حکم نامے کے ذریعے تین سال کی مدت کے لیے پی آئی اے کا چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کیا گیا اور اس کے بعد اخبار میں جو اشتہار دیا گیا اس میں وار کورس، شپنگ، نیول ایوی ایشن اور ملٹری آپریشنز یا ایسے ہی کسی متعلقہ تجربے کو شامل کیا گیا تاکہ دیگر امیدواروں کے مقابلے میں ایئر مارشل ارشد ملک کو ناجائز فائدہ پہنچایا جاسکے۔

پی آئی اے کے سی ای او کا معاملہ

خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔

علاوہ ازیں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 22 جنوری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا تھا۔

بعد ازاں ایئر مارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا

مذکورہ درخواست میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ انہیں عہدے پر بحال کیا جائے۔

21 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے ارشد ملک کی بحالی کی درخواست مسترد کردی تھی اور سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔