قتل کیس: 'عمران فاروق کے جسم پر زخموں کے 25 نشان تھے'
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما عمران فاروق قتل کیس کی سماعت میں پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے بیان ریکارڈ کرادیا۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت میں جج شاہ رخ ارجمند نے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی، جہاں کیس میں گرفتار 3 ملزمان کو اڈیالہ جیل سے پیش کیا گیا۔
اس دوران مقتول عمران فاروق کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر رابرٹ چپ مین نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کروایا۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے ڈاکٹر سے سوال پوچھا کہ آپ نے اپنے پیشہ ورانہ دور (پروفیشنل کیریئر) میں کتنے پوسٹ مارٹم کیے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے کیریئر میں 18 ہزار لاشوں کے پوسٹ مارٹم کیے۔
مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: 'ملزم معظم علی سے نائن زیرو ملنے گیا تو خوف طاری ہوگیا'
ڈاکٹر نے بتایا کہ اچانک موت کے 15 ہزار جبکہ مشتبہ موت اور قتل کے 3 ہزار پوسٹ مارٹم کیے، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ عمران فاروق کی پوسٹ مارٹم رپورٹ 14 فروری 2011 کو تیار کی گئی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران فاروق کے جسم پر زخموں کے 25 نشان تھے، جس پر پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے سوال کیا کہ آپ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عمران فاروق کے قتل کا کیا نتیجہ اخذ کیا؟
جس پر ڈاکٹر نے بیان دیا کہ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عمران فاروق کی موت چاقو کے وار کے باعث ہوئی، میری رائے میں ایسے زخموں کے بعد شخص چند منٹوں بعد ہی چل بسا ہوگا۔
سماعت کے دوران برطانوی ماہر قانون ٹوبی کیڈمین نے گزشتہ روز ایک گواہ کے بیان پر وضاحت دی۔
ٹوبی کیڈمین نے کہا کہ گزشتہ روز ایک گواہ نے بیان میں کہا کہ ملزم محسن علی کو ڈی پورٹ کیا گیا، تاہم یہ بات حقائق کے برعکس ہے، محسن علی کو ڈی پورٹ نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ محسن علی اپنے طور پر ملک چھوڑ گیا تھا، جس پر وکیل صفائی نے پوچھا کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ گواہ جھوٹا تھا؟ جس پر ٹوبی کیڈمین نے کہا کہ گواہ کو کسی پولیس افسرنے جو معلومات دیں وہ درست نہیں تھیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران 2 گواہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کروایا تھا، جس میں ایک گواہ معین الدین شیخ نے بتایا تھا کہ ملزم محسن علی 2010 میں ان کے گھر رہا۔
انہوں نے کہا تھا کہ محسن علی رہائش کے لیے کمرے کی تلاش میں تھا اور میں نے اس کو اپنے گھر میں کمرا دیا۔
معین الدین شیخ نے بتایا تھا کہ محسن نے مجھے پاسپورٹ کی کاپی اور اسٹوڈنٹ کارڈ کی کاپی دی، میں محسن سے 40 پاؤنڈ فی ہفتہ کرایہ لیتا تھا، ساتھ ہی انہوں نے بتایا تھا کہ محسن سے کامران نامی شخص ملنے آیا اس کے کچھ عرصے بعد ستمبر 2010 میں محسن منظر سے غائب ہوگیا، میں اس کے نمبر پر فون کرتا رہا، میں نے اس کے کالج فون کیا جس پر کالج والوں نے بتایا کہ وہ کئی دن سے کالج نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق کی بیوہ کا عدالت میں بیان، انصاف کی فراہمی کا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ میں نے پھر پولیس کو اس حوالے سے اطلاع دی، تاہم خاتون پولیس اہلکار نے مجھے بتایا کہ محسن کو ڈی پورٹ کردیا گیا۔
خیال رہے کہ 4 فروری کو بھی عمران فاروق قتل کیس میں 3 عینی شاہدین سمیت 5 گواہان نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیانات قلمبند کروائے تھے۔
اس سے ایک روز قبل مذکورہ کیس میں عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ نے عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا تھا اور عدالت سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا۔
عمران فاروق قتل کیس
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔
بعد ازاں برطانوی پولیس نے تحقیقات کے حوالے سے ویب سائٹ پر کچھ تفصیلات جاری کی تھیں جس کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔
دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔
جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔
یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا عمل ملتوی
مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔
6 دسمبر 2015 کو 3 مبینہ ملزمان معظم علی، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔
ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔
9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔
گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔
ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔
خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔
21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا تھا۔
29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔
جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔
ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ 'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انہوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔
04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا تھا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق کیس: ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور
اسی سال 28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔
10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔
علاوہ ازیں 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو اکتوبر کے مہینے تک ٹرائل مکمل کرنے کا کہا حکم دیا تھا تاہم استغاثہ کی جانب سے عدالت سے متعدد مرتبہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی، جس کی وجہ برطانوی حکومت کا شواہد فراہم کرنے میں رکاوٹ بننا بتایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ ملزم کو سزائے موت سنا دی جائے گی۔
تاہم گزشتہ سال برطانوی حکومت نے 23 برطانوی گواہان، 3 تفتیش کار اور دیگر ماہرین و عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 سے زائد دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں ہیں۔