آراہوس یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر دوران حمل ماﺅں کی جانب سے دردکش ادویات کا استعمال کیا جائے تو ان کی بیٹیوں میں بلوغت کی علامات 10 یا 11 بلکہ اس سے بھی پہلے ظاہر ہوسکتی ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ کسی طبی تحقیق میں دوران حمل دردکش ادویات اور بچوں میں بلوغت کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا اور اس کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف Epidemiology میں شائع ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے دونوں کے درمیان تعلق دریافت کیا ہے اور دوران حمل جتنے ہفتے دردکش ادویات کا استعمال ہوتا ہے، لڑکیوں میں بلوغت کی علامات جلد سامنے آنے کا امکان بڑھتا ہے، تاہم لڑکوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔
اس تحقیق کے دوران ڈنمارک کے برتھ کنٹرول کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور ایک لاکھ خواتین پر مشتمل گروپ نے تفصیلی معلومات فراہم کیں کہ دوران حمل کتنی بار انہوں نے دردکش ادویات استعمال کیں۔
ان خواتین نے 2000 سے 2003 کے دوران 15 ہزار سے زائد بچوں کو جنم دیا جن میں 7 ہزار 697 لڑکے اور 8 ہزار 125 لڑکیاں تھیں، جن کا جائزہ 11 سال تک لیا گیا اور ان سے بلوغت کے سوال نامے ہر 6 ماہ بعد بھروائے گئے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان لڑکیوں میں بلوغت کی علامات اوسطاً ڈیڑھ سے 3 ماہ جلد نمودار ہوئیں جن کی ماﺅں نے حمل کے دوران 12 ہفتے سے زائد دورانیے تک دردکش ادویات کا استعمال کیا۔
محققین کے مطابق ڈیڑھ سے تین ماہ قبل بلوغت بظاہر تو اہم نہیں لگتا، مگر جب اس کا جائزہ دوران حمل دردکش ادویات کے استعمال کے تسلسل کے ساتھ لیا جائے تو لوگ نتائج کا نوٹس لینے پر مجبور ہوجائیں گے، یہ نتائج فیصلہ کن نہیں جو موجودہ پریکٹس کو بدلنے پر مجبور کرے، مگر یہ تصور کہ دردکش ادویات دوران حمل محفوظ اور بے ضرر انتخاب ہیں، اس خیال کو ضرور چیلنج کرنے میں مدد ملے گی۔
دنیا بھر میں عام دستیاب دردکش ادویات کے استعمال کی شرح بڑھ چکی ہے اور تحقیقی رپورٹس کے مطابق 50 فیصد سے زائد حاملہ خواتین ان ادویات کا استعمال حمل کے دوران کم از کم ایک بار ضرور کرتی ہیں۔
محققین نے بتایا کہ قبل از وقت بلوغت کو عمر بڑھنے پر زیادہ سنگین امراض جیسے ذیابیطس، موٹاپے، دل کی شریانوں سے جڑے امراض، مثانے اور بریسٹ کینسر کے خطرات سے جوڑا جاتا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ قبل از وقت بلوغت کی ممکنہ وجوہات کو شناخت کرکے اس کی روک تھام کی جائے۔