نقطہ نظر

بھارت کے خلاف کھیلے تو سینئر اور جونیئر سب ایک ہوگئے!

بھارتی ٹیم نے انڈر 19 کرکٹ میں آخری جن 20 میچوں میں ہدف کا تعاقب کیا ہے، اس میں صرف ایک میچ میں ہی شکست کا سامنا ہوا

پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقابلہ کسی بھی میدان میں ہو دونوں طرف کے عوام کا جوش و خروش عروج پر ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں کرکٹ، ہاکی، کبڈی اور دیگر کھیلوں کے مقابلے تواتر سے ہوتے تھے، لیکن اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی خرابی کے باعث یہ مقابلے کم، کم ہی ہوتے ہیں۔

اگرچہ کرکٹ کے میدان پر اب بھی یہ دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آجاتی ہیں، مگر وہ بھی صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے تحت ہونے والے ایونٹس میں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار ہونے والے یہ مقابلے کھیل سے بڑھ کر اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔

آج کی ہماری یہ تحریر پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈر 19 ورلڈ کپ میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل سے متعلق ہے۔ یہاں یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت کے خلاف سینئر ٹیموں کی طرح اے ٹیموں کی کارکردگی بھی کافی حد تک یکطرفہ ہوگئی ہے۔

2017ء میں کھیلے جانے والی چمپئنز ٹرافی کے فائنل کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو پاکستان کے پاس روایتی حریف کے خلاف کوئی ایسی کاکردگی نہیں جس پر خوش ہوا جاسکے۔ ایک طویل عرصے سے انڈیا کو پاکستان کے خلاف واضح برتری حاصل ہوگئی ہے جس کا کوئی توڑ نہ ہی سینئر ٹیم کے پاس نظر آرہا ہے اور نہ ہی جونیئر ٹیموں کے پاس۔

انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا سیمی فائنل بھی ایک ایسا ہی میچ ثابت ہوا، جس میں انڈیا نے پاکستان کو چاروں شانے چت کردیا۔ انڈر 19 ورلڈکپ کی تاریخ میں یہ پہلا ناک آؤٹ میچ ہے جو کسی بھی ٹیم نے 10 وکٹوں سے جیتا ہے۔

اگر 2010ء تک کی بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈر 19 ورلڈ کپ میں 6 مقابلے کھیلے گئے تھے، جس میں پاکستان کو 1-5 سے برتری حاصل تھی، مگر ٹھیک 10 سال بعد یہ برتری ختم ہوگئی کیونکہ گزشتہ ان 10 سالوں میں کھیلے جانے والے چاروں میچوں میں بھارت کو کامیابی ملی اور یوں مقابلہ 5-5 سے برابر ہوچکا ہے۔

دونوں ٹیمیں سیمی فائنل سے قبل ناقابلِ شکست رہی تھیں، اس لیے یہ امید بہت زیادہ تھی کہ شائقینِ کرکٹ کو بہت اچھا میچ دیکھنے کو ملے گا۔ پاکستانی کپتان روحیل نذیر نے جب ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو جہاں پاکستانی کیمپ میں خوشی نظر آرہی تھی، وہیں بھارتی ٹیم بھی بہت مطمئن نظر آرہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بھی پہلے فیلڈنگ ہی کرنا چاہ رہے تھے اور اس کی ایک اہم وجہ بھی تھی۔

بھارتی ٹیم نے انڈر 19 کرکٹ میں آخری جن 20 میچوں میں ہدف کا تعاقب کیا ہے، اس میں صرف ایک میچ میں ہی شکست کا سامنا ہوا، یعنی یہ کہ وہ ہدف کے تعاقب کو پسند کرتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستانی ٹیم کی بات کی جائے تو انہوں نے بھی اپنی طاقت کو دیکھتے ہوئے یہ ٹھیک ہی فیصلہ کیا تھا کیونکہ اس ہائی پریشر گیم میں پاکستانی ٹیم سے رنز کے تعاقب کی امید لگانا شاید کچھ اچھا خیال ثابت نہیں ہوتا۔

میچ کے شروع سے ہی بھارتی ٹیم حاوی رہی۔ فاسٹ باؤلرز کارتھک تیاگی اور سشانت مشرا نے اپنی ٹیم کو بہترین آغاز فراہم کیا۔ پہلے ہی اوور میں اوپنر حیدر علی تیاگی کے ایک یارکر سے بال بال بچے تو دوسرے اوور میں مشرا کو لگا کہ جیسے وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں جانے والی شاٹ پچ گیند حریرہ کے گلووز پر لگ گئی ہے، لیکن امپائر ایسا بالکل نہیں سوچ رہے تھے اور انہوں نے اسے وائڈ بال قرار دے دیا۔

ابھی ٹی وی پر اس گیند کے ری پلے ہی دکھائے جا رہے تھے کہ حریرہ نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور شاٹ پچ آتی گیند کو ہوا میں اچھال دیا یوں ان کا سفر یہی اختتام کو پہنچا۔

اب ایک طرف حیدر علی عمدہ شاٹس کھیل رہے تھے تو دوسری طرف فہد منیر انتہائی خالی ذہن کے ساتھ وکٹ پر مسلسل گیندیں ضائع کرتے رہے۔ انہیں مشرا اور تیاگی کی باؤلنگ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی اور پھر 9ویں اوور میں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور لیگ اسپنر روی بشونی کی گیند پر ایک فضول سا شاٹ کھیلنے کے چکر میں وہ آوٹ ہوگئے۔ یوں 16 گیندوں پر کوئی بھی رن نہ بناکر ان کی بے کار سی اننگ کا خاتمہ ہوگیا۔

کپتان روحیل نذیر اور حیدر علی کریز پر اکٹھے ہوئے تو یہ پاکستان کی سب سے تجربہ کار اور بہترین جوڑی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں کی اس ٹورنامنٹ میں کارکردگی کافی حد تک تشویشناک تھی۔ حیدر نے 3 اننگز میں صرف 51 رنز اور روحیل نے 49 رنز بنائے تھے۔

اس اننگ میں اگرچہ یہ دونوں تیزی سے اسکور تو نہ کرسکے مگر اننگز کو سنبھالا دیے ہوئے تھے۔ نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد جب وکٹ پر رکنا نسبتاً آسان ہوگیا تھا تب حیدر ایک غلط شاٹ پر آؤٹ ہوگئے اور قاسم اکرم کو روحیل کی غلطی کی وجہ سے رن آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ جانا پڑا۔

محمد حارث جو زمبابوے کے خلاف ایک اچھی اننگ کھیل چکے تھے، ایک بار پھر سے بھرپور فارم میں نظر آئے اور لگ رہا تھا کہ پاکستان 250 کے لگ بھگ اسکور بنا لے گا، لیکن دیویانش سکسینہ نے اسکوائر لیگ پر ایک بہترین کیچ پکڑ کر حارث کو ہی پویلین واپس نہیں بھیجا بلکہ پاکستانی اننگ کی تباہی کا آغاز بھی کردیا۔ ایک ایسی ٹیم جس کے 146 رنز پر صرف 4 کھلاڑی آؤٹ تھے، وہی ٹیم جب 172 رنز پر ڈھیر ہوجائے تو اسے تباہی کے سوا اور بھلا کیا کہا جاسکتا تھا۔

اس پوری اننگ میں جو ایک بات تمام کھلاڑیوں میں مماثلت رکھتی تھی، وہ پویلین واپس جانے کی جلدی اور غلط وقت پر غلط شاٹ کھیلنے کی صلاحیت تھی۔ ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ٹیم پورے 50 اوورز بیٹنگ کے موڈ میں ہے۔ مشکل ترین وقت میں کپتان کو ذمہ داری لینے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے جس بے دلی سے بیٹنگ کی اور اپنی وکٹ گنوائی، اس نے واقعی بہت زیادہ مایوس کیا۔

اب جب بھارتی بلے باز بیٹنگ کے لیے آئے تو پچ میں سوئنگ باقی تھی اور پاکستانی فاسٹ باؤلرز پچھلے میچوں میں ثابت کرچکے تھے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیے اب بھی کہیں نہ کہیں یہ امید کہ اگر ابتدائی اوورز میں وکٹیں مل گئیں تو میچ دلچسپ صورتحال اختیار کرسکتا تھا۔ اسی لیے ابتدائی اوورز میں بھارت اوپنرز محتاط رہے۔

ابتدائی چند اوورز کے بعد سوئنگ کچھ کم ہوگئی اور انڈین بیٹسمینوں نے کھل کر کھیلنا شروع کردیا۔ پاکستانی کپتان نے ہر کوشش کرکے دیکھ لی، تمام باؤلرز کو آزما لیا، فیلڈنگ پوزیشن بھی بدل کر دیکھ لی، لیکن انڈین اوپننگ جوڑی کو جدا نہ کرسکے اور انڈیا نے یہ میچ 10 وکٹوں سے بااآسانی جیت لیا جبکہ ابھی 14 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ یشاسوی جیسوال نے شاندار سنچری بنائی اور مین آف دی میچ قرار پائے۔

اس میچ میں دونوں ٹیموں کی کارکردگی، ان کی سوچ اور ان کے رویے میں واضح فرق نظر آیا۔ بھارتی ٹیم باقاعدہ منصوبہ بندی سے کھیلتی نظر آئی، جس طرح شروع کے اوورز میں مشرا نے شاٹ پچ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا، وہ پوری تیاری کی خبر دے رہی تھی۔ 3 پاکستانی بیٹسمین شاٹ پچ گیندوں پر وکٹیں دے بیٹھے۔

لیکن آخر میں یہ سوال اٹھانا بہت ضروری ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں میں فرق اتنا کیوں بڑھ گیا ہے؟ اس کی چند وجوہات سمجھ آتی ہیں۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔