پاکستان

پاور اور فنانس ڈویژنز نے برآمد کنندگان کیلئے بجلی مہنگی کرنے کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال دیا

شعبہ توانائی نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کرکے اختیارات کا غلط استعمال کیا، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ

اسلام آباد: تاجروں اور برآمد کنندگان کی جانب سے فیکٹریاں اور کاروبار بند کرنے کی دھمکیوں کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریونیو اور فنانس نے برآمدی صنعتوں کے لیے پاور ٹیرف میں اضافہ اور یکم جنوری 2019 کی سابق ریکوری معطل کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیض اللہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں مشاہدہ کیا گیا کہ رواں برس 13 جنوری کو پاور ڈویژن کا نوٹی فکیشن غیر مجاز معلوم ہوتا ہے جس میں برآمدی شعبے کے لیے بجلی کے نرخ 7.5 سینٹس فی یونٹ سے 13 سینٹس تک بڑھایا گیا۔

قائمہ کمیٹی کے اراکین نے اتفاق رائے کا اظہار کیا کہ پاور ڈویژن نے نوٹی فکیشن جاری کرکے اتھارٹی کا غلط استعمال کیا تھا اور درحقیقت یکطرفہ طور پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ کا مینڈیٹ استعمال کیا تھا۔

مزید پڑھیں: گیس کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافے کا امکان

کمیٹی نے متفقہ طور پر حکم دیا کہ پاور ڈویژن کو برآمدی صنعتوں کی مراعات کی واپسی کے لیے ای سی سی اور کابینہ کے پاس جانا چاہیے اور اگر بجٹ میں سبسڈی کی رقم موجود نہیں تو مستقبل میں عملدرآمد کے لیے حکومت کی جانب سے ان صنعتوں کی حمایت کے فیصلے کے خاتمے کا اعلان کرے۔

تاہم قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کسی بھی حالت میں یکم جنوری 2019 سے ٹیرف ریکوری میں اضافے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ عملی طور پر بھی انڈسٹری کے لیے عالمی مارکیٹ میں فروخت کی گئی مصنوعات کی بحالی کے لیے ناممکن ہے۔

وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکریٹری ڈاکٹر ارشد محمود نے اتفاق کیا کہ کسی الجھن یا ناکافی سبسڈی کو فیصلے کے لیے دوبارہ ای سی سی بھیجا جانا چاہیے اور کسی وزارت کو کابینہ یا اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی ترجمانی کے اختیارات حاصل نہیں۔

اجلاس کے دوران وزارت خزانہ، کامرس اور توانائی کے نمائندگان نے خود کو برآمدی صنعتوں کے لیے پاور ٹیرف پالیسی میں یوٹرن سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور کمیٹی کے چیئرمین فیض اللہ نے بتایا کہ انہوں نے ذاتی طور پر وزیر توانائی عمر ایوب سے بات کی تھی جنہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا تعلق وزارت خزانہ سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہنگائی پر نظر رکھنے کی پالیسیوں کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے، حکومت

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ وزارتیں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہی ہے اور کمیٹی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں جبکہ خزانہ، کامرس اور توانائی تینوں وزارتوں کو تحریری طور پر اس حوالے سے اجلاس میں شرکت یا اپنے سیکریٹریز بھیجنے کا کہا گیا تھا۔

فیض اللہ نے کہا کہ وہ خود چند اجلاسوں کے گواہ ہیں جس میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے فروری 2019 میں برآمدی پیکیج کا اعلان کیا تھا جس میں تمام سرچارجز سمیت 7.5 سینٹس فی یونٹ بجلی ٹیرف بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ 13 جنوری کو شعبہ توانائی کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری کرنے سے قبل اس پیکیج پر ای سی سی کی منظوری کے بعد مکمل طور پر عملدرآمد ہورہا تھا۔