پاکستان

چین میں موجود پاکستانیوں کے مسائل پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز

ہمارے بچے یتیم نہیں، ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ انہیں چین میں رکھنا چاہتے ہیں یا پاکستان واپس لانا چاہتے ہیں، فواد چوہدری
| |

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تجویز دی ہے کہ نوول کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں پھنس جانے والے پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک 21 ہزار 653 افراد وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں اور 23 ہزار افراد زیر نگرانی ہیں، ہمارے بچے یتیم نہیں اس لیے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم انہیں چین میں رکھنا چاہتے ہیں یا پاکستان واپس لانا چاہتے ہیں‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا مزید کہنا تھا کہ مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کو چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب پاکستانیوں کو لاحق مسائل کے حوالے سے فیصلہ کرنا چاہیے۔

جس پر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے سے قبل حکومت سے پالیسی اسٹیٹمنٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: چین سے پروازیں بحال، پھنسے ہوئے پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے

دوسری جانب چین سے 122 مسافروں کو لے کر ایک اور پرواز اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی، پرواز میں 31 چینی شہری بھی سوار تھے جس میں سے ایک چینی معمولی بخار پر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) منتقل کیا گیا۔

اس ضمن میں ایک امیگریشن افسر نے بتایا کہ چینی مسافر کو سانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھا جس کی وجہ سے اسے پمز میں قائم آئیسولیشن وارڈ میں رکھا گیا، انہوں نے بتایا کہ مسافر کو دوران پرواز بخار ہوا تھا۔

پمز کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ نے بھی ایک مریض کو ہسپتال منتقل کیے جانے کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ مریض کا معائنہ کیا جارہا ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ انہیں ہسپتال میں رکھا جائے یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی ٹیم نے ہسپتال پہنچ کر مریض کے نمونے حاصل کیے تا کہ اس بات کا اندازہ کیا جاسکے کہ مذکورہ شخص نوول کورونا وائرس سے متاثر تو نہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے حوالے سے پھیلنے والی افواہیں

دوسری جانب وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بتایا کہ پیر کی رات ایک پرواز 300 چینی شہریوں کو لے کر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اتری جس کے لیے ایمبولینسز اور ڈاکٹرز ہوائی اڈے پر موجود تھے۔

علاوہ ازیں وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کورونا وائرس کے خطرے سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس حوالے سے ضروری تیاریاں کرلی ہیں۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب تک پاکستان میں کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جبکہ احتیاطی تدابیر اور آگاہی اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اہم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر 7 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے تھے جس میں سے 4 مریض کو ڈسچارج کردیا گیا جبکہ 3 زیر علاج ہیں۔

کورونا وائرس کے بارے میں جانیے

کورونا وائرس ایک عام وائرل ہونے والا وائرس ہے جو عام طور پر ایسے جانوروں کو متاثر کرتا ہے جو بچوں کو دودھ پلاتے ہیں تاہم یہ وائرس سمندری مخلوق سمیت انسانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اس وائرس میں مبتلا انسان کا نظام تنفس متاثر ہوتا ہے اور اسے سانس میں تکلیف سمیت گلے میں سوزش و خراش بھی ہوتی ہے اور اس وائرس کی علامات عام نزلہ و زکام یا گلے کی خارش جیسی بیماریوں سے الگ ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فلپائن کے بعد ہانگ کانگ میں بھی کورونا وائرس سے ایک شخص ہلاک

کورونا وائرس کی علامات میں ناک بند ہونا، سردرد، کھانسی، گلے کی سوجن اور بخار شامل ہیں اور چین کے مرکزی وزیر صحت کے مطابق 'اس وبا کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے، میں خوفزدہ ہوں کہ یہ سلسلہ کچھ عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے اور کیسز کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے'۔

وائرس کے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد چین کے کئی شہروں میں عوامی مقامات اور سینما گھروں سمیت دیگر اہم سیاحتی مقامات کو بھی بند کردیا گیا تھا جب کہ شہریوں کو سخت تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ متعدد شہروں کو قرنطینہ میں تبدیل کرتے ہوئے عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نئے قمری سال کی تعطیلات میں اضافہ کر کے تعلیمی اداروں اور دیگر دفاتر کو بند رکھا گیا تھا۔

واضح رہے کسی کورونا وائرس کا شکار ہونے پر فلو یا نمونیا جیسی علامات سامنے آتی ہیں جبکہ اس کی نئی قسم کا اب تک کوئی ٹھوس علاج موجود نہیں مگر احتیاطی تدابیر اور دیگر ادویات کی مدد سے اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

ٹک ٹاک میں بڑی تبدیلی متعارف کرائے جانے کا امکان

فلپائن کے بعد ہانگ کانگ میں بھی کورونا وائرس سے ایک شخص ہلاک

نئے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا مشکل کیوں؟