یورپی ملک سلووینیا میں 50 سال بعد کھلنے والی پہلی مسجد
براعظم یورپ کے ملک سلووینیا میں مالی رکاوٹوں اور دائیں بازو کی اپوزیشن کی جانب سے کھڑی کردہ مشکلات کے باوجود مسجد کھول دی گئی۔
سلووینیا کے دارالحکومت لجوبلجانا میں کھولی گئی اس مسجد کی تعمیر کی ابتدائی اجازت 50 سال پہلے لی گئی تھی۔
اس منصوبے کے مخالفین جس میں قطری فنڈنگ پر تنقید کرنے والے بھی شامل تھے وہ لوگ اس کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہے اور ان کی جانب سے کبھی مذکورہ مقام پر خنزیر کا سر اور خون بھی پھینکا جانے لگا تھا۔
تاہم اب 50 سال بعد اس مسجد کو کھول دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے اسلامی کمیونٹی کے سربراہ مفتی نیزاد گریبس کا کہنا تھا کہ مسجد کا کھلنا 'ہماری زندگیوں میں ایک اہم موڑ ہے'۔
ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ سلووینیا مسجد حاصل کرنے والی آخری یوگوسلاویا کی ریاست ہے اور اس نے لجبلجانا کو صوبائی ٹاؤن بنانے کے بجائے دارالحکومت بنایا۔
واضح رہے کہ بنیادی طور پر کیتھولک الپائن ملک میں مسلمانوں نے 1960 کی دہائی کے آخر میں مسجد تعمیر کرنے کی درخواست دی تھی جبکہ اس وقت سلووینیا سابق کمیونسٹ یوگوسلاویا کا حصہ تھا۔
بالآخر 15 سال بعد انہیں اس کی تعمیر کی اجازت ملی لیکن وہ مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ دائیں بازوں کے سیاست دانوں اور گروہوں کی جانب سے مشکلات سے دوچار ہوگئے۔
مفتی نیزاد گریبس 2013 میں شروع ہونے والی اس مسجد کی تعمیر میں 3 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (3 کروڑ 40 لاکھ یورو) لاگت آئی جس میں 2 کروڑ 80 لاکھ یورو قطر کے عطیہ کردہ تھے۔
یاد رہے کہ لجوبلجانا کے نیم صنعتی علاقے میں واقع مسجد میں ایک ہزار 400 افراد آسکتے ہیں جہاں 6 منزلہ اسلامک کلچرل سینٹر ہے۔
اس سینٹر میں کمیونٹی آفسز، ایک تعلیمی مرکز جس میں ایک لائبریری، ریسٹورنٹ، باسکٹ بال کورٹ، مسلمان عالم کے لیے رہائش اور 40 میٹر (131فٹ) اونچا مینار ہے۔
مرکز کی تمام عمارتیں اسٹیل، گلاس اور لکڑی کے ساتھ سفید کونکریٹ سے بنی ہیں، اس کے علاوہ بلیو ٹیکسٹائل سے بنا ہوا ایک بڑا گنبد بھی موجود ہے جو استنبول کی بلیو مسجد کی یاد دلاتا ہے۔
براعظم یورپ کے ملک سلووینیا میں مالی رکاوٹوں اور دائیں بازو کی اپوزیشن کی جانب سے کھڑی کردہ مشکلات کے باوجود مسجد کھول دی گئی۔
سلووینیا کے دارالحکومت لجوبلجانا میں کھولی گئی اس مسجد کی تعمیر کی ابتدائی اجازت 50 سال پہلے لی گئی تھی۔
اس منصوبے کے مخالفین جس میں قطری فنڈنگ پر تنقید کرنے والے بھی شامل تھے وہ لوگ اس کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہے اور ان کی جانب سے کبھی مذکورہ مقام پر خنزیر کا سر اور خون بھی پھینکا جانے لگا تھا۔
تاہم اب 50 سال بعد اس مسجد کو کھول دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے اسلامی کمیونٹی کے سربراہ مفتی نیزاد گریبس کا کہنا تھا کہ مسجد کا کھلنا 'ہماری زندگیوں میں ایک اہم موڑ ہے'۔
ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ سلووینیا مسجد حاصل کرنے والی آخری یوگوسلاویا کی ریاست ہے اور اس نے لجبلجانا کو صوبائی ٹاؤن بنانے کے بجائے دارالحکومت بنایا۔
واضح رہے کہ بنیادی طور پر کیتھولک الپائن ملک میں مسلمانوں نے 1960 کی دہائی کے آخر میں مسجد تعمیر کرنے کی درخواست دی تھی جبکہ اس وقت سلووینیا سابق کمیونسٹ یوگوسلاویا کا حصہ تھا۔
بالآخر 15 سال بعد انہیں اس کی تعمیر کی اجازت ملی لیکن وہ مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ دائیں بازوں کے سیاست دانوں اور گروہوں کی جانب سے مشکلات سے دوچار ہوگئے۔
مفتی نیزاد گریبس 2013 میں شروع ہونے والی اس مسجد کی تعمیر میں 3 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (3 کروڑ 40 لاکھ یورو) لاگت آئی جس میں 2 کروڑ 80 لاکھ یورو قطر کے عطیہ کردہ تھے۔
یاد رہے کہ لجوبلجانا کے نیم صنعتی علاقے میں واقع مسجد میں ایک ہزار 400 افراد آسکتے ہیں جہاں 6 منزلہ اسلامک کلچرل سینٹر ہے۔
اس سینٹر میں کمیونٹی آفسز، ایک تعلیمی مرکز جس میں ایک لائبریری، ریسٹورنٹ، باسکٹ بال کورٹ، مسلمان عالم کے لیے رہائش اور 40 میٹر (131فٹ) اونچا مینار ہے۔
مرکز کی تمام عمارتیں اسٹیل، گلاس اور لکڑی کے ساتھ سفید کونکریٹ سے بنی ہیں، اس کے علاوہ بلیو ٹیکسٹائل سے بنا ہوا ایک بڑا گنبد بھی موجود ہے جو استنبول کی بلیو مسجد کی یاد دلاتا ہے۔