پاکستان

حکومت اور مسلم لیگ (ق) کے مذاکرات جمود کا شکار

نئی کمیٹی بنانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جو پہلے معاہدے ہوئے تھے ان پر دوبارہ گفت و شنید ہوگی، وفاقی وزیر تعلیم

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ان کے ساتھ اتحاد مضبوط ہے اور خدشات بڑی حد تک حل ہوگئے ہیں۔

شفقت محمود نے کہا کہ ‘یہ ایک سوچ کا رشتہ ہے، ہماری سوچ ایک دوسرے سے ملتی ہے اور ہم پاکستان، اس کے مستقبل کے لیے جو ہم چاہتے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ جو چاہتی ہے وہ ایک ہے، اس لیے یہ بڑا مضبوط رشتہ ہے، اگر عمل درآمد میں کہیں مسئلہ ہوتا ہے تو وہ ایسا مسئلہ نہیں کہ حل نہ ہوسکے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ساتھ ایک مضبوط اور مستقل ساتھ ہے اور آئندہ بھی رہے گا، جو بھی دشواری ہوگی اس کو عبور کیا جائے گا، انتہائی اچھے ماحول میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے ملاقات کی ہے، میں ان کا بہت مشکور ہوں (ہم) چوہدری صاحب سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، ان کا بہت تجربہ بھی ہے اور یہ جہاندیدہ بھی ہیں’۔

مزید پڑھیں:مسلم لیگ (ق) نے تحریک انصاف کی نئی ٹیم کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘میری چوہدری پرویز الٰہی سے دوبدو ملاقات ہوئی جس میں دونوں جماعتوں کے جو معاملات تھے ان پر تفصیلی گفتگو ہوئی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں اس تاثر کو زائل کرنا چاہتا ہوں کہ نئی کمیٹی بنانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جو پہلے معاہدے ہوئے تھے ان پر دوبارہ گفت و شنید ہوگی، ایسا نہیں ہے بلکہ جو معاہدے ہو چکے ہیں انہی پر آگے چل کر عمل درآمد ہوگا، جو پہلے طے ہوچکا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور اسی کو لے کر چلیں گے’۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘عنقریب ہماری کمیٹی کی پاکستان مسلم لیگ (ق)کی کمیٹی سے تفصیلی گفتگو ہوگی جس میں چیمہ صاحب اور مونس صاحب ہیں’۔

شفقت محمود نے کہا کہ ‘کمیٹیوں کے درمیان ملاقات اگلے 4 یا 5 دنوں میں ہوجائے گی جبکہ ہمارے درمیان جو رشتہ ہے وہ انتہائی مضبوط ہے اور (میں) یہ بات میں ان کے گھر میں کھڑے ہو کر کہہ رہا ہوں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان مسلم لیگ (ق) بالکل ناراض نہیں ہے، کچھ خدشات تھے جن کے بارے میں بات ہوئی ہے، یہ خدشات بہت حد تک حل ہوگئے ہیں اور جب کمیٹی آپس میں بیٹھے گی تو اس معاہدے کی شقوں پر بات ہوگی’۔

مسلم لیگ (ق) کے خدشات کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ایک خدشہ یہ تھا کہ نئی کمیٹی بنی ہے تو ساری بات ابتدا سے شروع کی جائے گی تو ایسی بات نہیں ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کا آپس میں اتحاد کسی کے لینے دینے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سوچ ایک ہے اور یہ قائم رہے گا اور ہم مل کر پاکستان کے مسائل حل کریں گے’۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں سے رابطے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دیں

دوسری جانب ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت کا موقف دوٹوک ہے کہ ’پہلے جہانگیر ترین کی سربراہی میں قائم حکومتی کمیٹی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں جن باتوں پر اتفاق کیا گیا ان پر عملدرآمد کیا جائے جس کے بعد دوسری کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا ان کی جماعت کو نئی کمیٹی کے کسی رکن سے کوئی مسئلہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں کسی سے کوئی مسئلہ نہیں اور ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہمارا اصولی موقف ہے کہ پہلی کمیٹی کے فیصلوں کو عزت دی جائے پھر ہمیں نئی کمیٹی کے ساتھ بات چیت کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘۔

وزیراعظم کی جانب سے جہانگیر ترین کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی پر عدم اعتماد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مونس الٰہی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کے وزیراعظم کو اس کمیٹی کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جو گزشتہ 2 ماہ سے ہمارے ساتھ رابطے میں تھی اور ہمارے تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی'۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد، 'چاہتے ہیں خالد مقبول کابینہ کا حصہ بنیں'

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناراض اتحادیوں کو منانے کے لیے بنائی گئی نئی کمیٹی سے مذاکرات سے انکار کیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جہانگیر ترین، وزیر دفاع پرویز خٹک اور دیگر پر مشتمل کمیٹی کو تحلیل کرکے گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو مسلم لیگ (ق) سے نئے مذاکرات کی ہدایت کی تھی۔

علاوہ ازیں دوسرے اتحادی ایم کیو ایم پاکستان سے مذاکرات کے لیے نئی کمیٹی میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی اور رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کو شامل کیا گیا تھا۔

جہانگیر ترین کی قیادت میں کمیٹی نے مسلم لیگ (ق) سے مذاکرات میں انہیں پنجاب میں 2 وزیر اور مرکز میں موجود ایک وزیر کو بااختیار بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جس کے علاوہ انہوں نے جماعت کو گجرات، چکوال اور بہاولپور اضلاع سمیت کئی تحصیلوں میں انتظامی اختیارات دینے کا بھی کہا تھا۔

کمیٹی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ وزیر اعظم سے مسلم لیگ (ق) کے لیے ایک اور وفاقی وزارت دینے کی بات کرے گی۔

امریکا کے طالبان سے امن معاہدے سے قبل کارروائیاں روکنے کے مطالبات

چین میں کورونا وائرس کے علاج کی آزمائش شروع

بلدیہ فیکٹری کیس:ایم کیو ایم نے تحقیقات روکنے کیلئے پولیس پر دباؤ ڈالا، پراسیکیوٹر