صحت

چین میں کورونا وائرس کے علاج کی آزمائش شروع

ایک طبی ٹیم بیجنگ میں چائنا جاپان فرینڈ شپ ہسپتال میں کورونا وائرس کی نئی قسم پر تحقیق کر رہی ہے۔

چین نے ووہان سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل جانے والے 2019 نوول کورونا وائرس انفیکشن کے علاج کے لیے ایک دوا کی آزمائش شروع کردی ہے۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق Remdesivir نامی یہ اینٹی وائرل دوا گیلاڈ سائنسز انکارپوریشن نے تیار کی ہے جس کا مقصد وبائی امراض جیسے ایبولا اور سارس پر قابو پانا ہے اور اب اس کی آزمائش ایک طبی ٹیم بیجنگ میں چائنا جاپان فرینڈ شپ ہسپتال میں کورونا وائرس کی نئی قسم پر کررہی ہے۔

اس دوا کی آزمائش ووہان میں بھی کی جائے گی جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا اور اب تک صرف چین میں ہی 360 سے زائد افراد ہلاک اور 17 ہزار سے زائد بیمار ہوچکے ہیں جبکہ یہ دیگر 24 ممالک تک بھی پہنچ چکا ہے۔

چین کی سائٹ دی پیپر نے اتوار کو بتایا تھا کہ اس نئی دوا کی آزمائش کے لیے متعدل نمونیا کے شکار 270 مریضوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

ادویات بنانے والی کمپنیاں جیسے گلیکسو اسمتھ کلن کے ساتھ ساتھ چینی حکام کی جانب سے اس نئے وائرس کی روک تھام کے لیے بہت تیزی سے ویکسینز اور تھراپیز کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، اور Remdesivir کے انسانوں پر اثرات اس وائرس کے خلاف اب تک حوصلہ افزا ثابت ہوئے ہیں، جس کے لیے ابھی کوئی مخصوص طریقہ علاج یا ویکسین دستیاب نہیں۔

تجرباتی دوا

اس دوا کو تیار کرنے والی کمپنی نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس تجرباتی دوا کو اب تک دنیا میں کسی ڈرگ ریگولیٹر نے منظوری نہیں دی مگر اسے نئے وائرس کے خلاف جنگ کے لیے مریضوں پر استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی منظور علاج موجود نہیں۔

چین کے ہیلتھ ریگولیٹر کی جانب سے ایک ایچ آئی وی دوا Kaletra کو کورونا وائرس کے لیے عارضی اینٹی وائرل دوا کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے اور اس کی آزمائش پر انسانی مریضوں پر ہورہی ہے۔

دوسری جانب اس وائرس کے خلاف طریقہ علاج کے لیے عالمی سطح پر کام کیا جارہا ہے۔

جونس اینڈ جونس کی جانب سے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین پر کام شروع کردیا گیا ہے جبکہ گلیکسو اسمتھ کلن کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ ویکسین پر اپنے کام کو تیز کرکے اسے فوری طور پر فراہم کرے گی۔

تاہم طبی حکام کا کہنا ہے کہ انسانوں پر ابتدائی آزمائش کے لیے ایک ویکسین کی دستیابی میں 3 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے جبکہ عموماً موثر ویکسین تیار کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ نئی تجرباتی دوا اس وائرس کی روک تھام کے لیے سب سے اہم ہتھیار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔

گزشتہ ہفتے طبی جریدے نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکا میں اس وائرس کے پہلے مریض کا نمونیا اس دوا کے استعمال سے بہتر ہوا۔

چین میں اس کی آزمائش سے اس دوا کی جلد منظوری میں مدد مل سکے گی اور چین کے ادویاتی قوانین میں بھی جان لیوا امراض ک خلاف موثر ادویات کی کلینکل ڈیٹا میں افادیت پر منظوری دی جارہی ہے۔

اس سے قبل گزشتہ دنوں تھائی لینڈ کی وزارت صحت نے اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ایک چینی خاتون کا علاج نزلہ اور ایچ آئی وی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے اینٹی وائرل کاک ٹیل کے ذریعے کیا گیا جس کے نتیجے میںاس کی حالت میں ڈرامائی انداز میں بہتری آئی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کی وزارت صحت کی پریس بریفنگ کے دوران ڈاکٹر کریئنگسک ایٹیپورنوانچ کا کہنا تھا کہ 71 سالہ خاتون میں وائرس مثبت آنے کے بعد ہمارے ڈاکٹرز نے ان کا علاج کیا اور 48 گھنٹے بعد نتیجہ منفی آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کوروناوائرس 48 گھنٹے بعد منفی آیا، پہلے وہ شدید پریشان تھیں لیکن 12 گھنٹے بعد وہ بستر پر بیٹھ سکیں’۔

ڈاکٹر کریئنگسک نے کہا کہ ڈاکٹروں نے انسداد فلو ادویات کو ایچ آئی وی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ڈرگس لوپنویر اور ریٹوناویر، اینڈی وائرل کو ملاکر نئے دوا بنائی تاہم وزارت صحت کو اس سے ثابت کرنے کے لیے تحقیقی نتائج کا انتظار ہے۔

کیا چین سے آنے والا سامان آپ کو کورونا وائرس کا شکار بناسکتا ہے؟

چین: 10 دن میں تیار کردہ ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج شروع

نئے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا مشکل کیوں؟