نیاز اسٹیڈیم: وہ لاوارث میدان جس کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں
شائقینِ کرکٹ کو تھا جس کا انتظار وہ شاہکار وقت آ ہی گیا۔ پاکستان سپر لیگ (پی سی ایل) ہونے کو ہے۔ اس بار کرکٹ کے متوالے کچھ زیادہ ہی خوش ہیں کیونکہ پانچویں ایڈیشن کے موقعے پر پہلی بار پی ایس ایل کے تمام میچ پاکستان کی سرزمین پر ہی کھیلے جائیں گے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی رونقیں بھی بحال ہونے لگی ہیں۔ دسمبر 2019ء میں سری لنکن ٹیم 10 سالہ طویل وقفے کے بعد 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آئی۔ پھر بنگلادیشی ٹیم بھی یہاں سیریز کھیلنے پر راضی ہوئی۔
مگر حیدرآباد کرکٹ کے چاہنے والوں کی بین الاقوامی کرکٹ کے لوٹنے سے متعلق آرزو ابھی ادھوری ہے، کیونکہ کراچی کے بعد سندھ کے واحد بین الاقوامی اسٹیڈیم یعنی نیاز اسٹیڈیم میں ابھی کافی مرمتی کام کی ضرورت ہے۔
سابق کمشنر نیاز احمد نے اس میدان کو 1959ء میں بنوایا تھا۔ اگرچہ وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ سال نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پی ایس ایل کے میچوں کا انعقاد نیاز اسٹیڈیم میں بھی ہوگا لیکن اس کے باوجود اس مرتبہ یہ میدان پی ایس ایل کے کسی ایک میچ کی بھی میزبانی نہیں کر رہا۔
'نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے ساتھ ساتھ نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں بھی پی ایس ایل 2020ء کے میچوں کا انعقاد ہوگا'، یہ اعلان کرنے سے پہلے وزیرِاعلی سندھ نے گزشتہ برس پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین احسان مانی سے ملاقات بھی کی تھی۔
وزیرِاعلیٰ نے 26 مارچ 2019ء کو ڈیویژنل کمشنر حیدرآباد محمد عباس بلوچ کو ہدایت بھی جاری کردی تھی کہ وہ نیاز اسٹیڈم کو بین الاقوامی اسٹیڈیم میں بدلنے کے لیے مطلوبہ مرمتی اور تعمیراتی کام شروع کروا دیں تاکہ یہاں پی ایس ایل 2020ء کے میچ کھیلے جاسکیں۔
سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں نشینل اسٹیڈیم کراچی اور نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد کی صورت میں صرف 2 بین الاقوامی کرکٹ اسٹیڈیم ہیں جہاں پاکستان کی ٹیم نے تاریخی ریکارڈز قائم کیے ہوئے ہیں۔
پڑھیے: پاکستان سپر لیگ میں 2 سب سے بہترین ٹیمیں کونسی ہیں؟
اسی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پی سی بی نے اسٹیڈیم کی نگران مقامی میونسپل کمیٹی سے جولائی 2007ء میں سمجھوتے کی یادداشت کے تحت میدان کا انتظامی کنٹرول حاصل کیا تھا۔ کرکٹ میدان 11 برس تک پی سی بی کے دائرہ اختیار میں رہا جس کے بعد میونسپل کمیٹی نے 2 اپریل 2018ء کو اپنی مرضی سے سمجھوتے کی یادداشت منسوخ کرکے اسٹیڈیم کو اپنے دائرہ اختیار میں لے لیا۔
سمجھوتے کی یادداشت کی منسوخی صرف کچھ حد تک ہی قابلِ فہم تھی۔ مقامی میونسپل کی قیادت کا شکوہ ہے کہ 11 برسوں کے دوران پی سی بی نے سمجھوتے کی یادداشتوں میں شامل وعدوں کو پورا نہیں کیا، یوں سمجھوتے کی منسوخی کی راہ ہموار ہوئی۔