کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر کئی ممالک کی حکومتیں پریشان
چین میں پھیلنے والے کورونا وائرس سے اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 14 ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ دنیا بھر کی حکومتیں اس وائرس کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سرحدوں کی بندش سے لے کر پروازوں پر پابندی تک، دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔
سفری پابندی
امریکا نے جمعے کے روز چین کا گزشتہ دو ہفتوں میں دورہ کرنے والے غیر ملکیوں کے امریکا میں داخلے پر عارضی طور پر پابندی عائد کردی ہے۔
امریکی شہریوں پر بھی کئی بڑی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں وبا پھیلنے کا مرکز بتائے جانے والے صوبے سے واپس آنے والے افراد کو 14 روز کے لیے قرنطینہ (الگ تھلگ) رہنا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: چین سے باہر فلپائن میں کورونا وائرس کی پہلی ہلاکت
اس پابندی سے مستثنیٰ صرف وہی افراد ہیں جو امریکی شہریوں کے اہلخانہ کے رکن ہیں اور ان کی وہاں مستقل رہائش ہے۔
نیوزی لینڈ، سنگاپور، ملائیشیا، فلپائن، منگولیا نے بھی اس ہی طرح کی، چین کا سفر کرنے والے افراد پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
مختلف ایئرلائنز نے چین کے لیے اپنی پروازیں روک دی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے عالمی ایمنرجنسی نافذ کرنے کے بعد پاکستان نے بھی چین سے آنے اور جانے والی پروازیں فوری طور پر روک دی ہیں۔
سرحدوں کی بندش
چند ممالک نے وائرس کے پھیلنے سے روکنے کے لیے چین کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔
روس کا کہنا تھا کہ وہ چین کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر رہے ہیں، قازقستان نے بھی چین کے لیے سرحد پار چلنے والی بس اور مسافر ٹرین سروسز معطل کردی ہیں۔
منگولیا نے چین کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کردیا ہے جبکہ چین کے ساتھ تعلقات پر انحصار کرنے والے شمالی کوریا نے بھی غیر ملکی سیاحوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
ویتنام نے چین سے چلنے والی تمام پروازوں کی معطلی کا اعلان کیا ہے۔
نیپال نے چینی سرحد پر 29 جنوری سے 15 روز کے لیے راسوواگادھی چیک پوائنٹ کو بند کردیا ہے۔
پاپوا نیو گینی نے دیگر ممالک سے آگے بڑھتے ہوئے ایشیا سے آنے والے تمام غیر ملکیوں کے لیے فضا کے ساتھ ساتھ سمندری راستے بھی بند کردیے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا کے زیر اثر صوبے مغربی پاپوا کے ساتھ اپنی واحد زمینی سرحد کو بھی بند کردیا ہے۔
چینی باشندوں کے دورے پر پابندی
کئی ممالک نے عارضی طور پر کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد چینی شہریوں کو ویزا کا اجرا بند کردیا ہے۔
سنگاپور نے چینی مسافروں کے لیے تمام قسم کے ویزوں کا اجرا بند کردیا ہے جبکہ چینی سیاحوں معروف مقام ویتنام نے بھی سیاحتی ویزا کا اجرا روک دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین میں 4 پاکستانی طلبہ میں کورونا وائرس کی تصدیق
بیجنگ کے قریبی اتحادی روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ چینی شہریوں کے لیے ویزا کے بغیر سیاحت کو روک رہے ہیں اور انہیں کام کرنے کا ویزا دینا بھی بند کر رہے ہیں۔
انہوں نے چینی شہریوں کو سرحد پار کرنے کے لیے الیکٹرونک ویزا کا اجرا پہلے ہی روک دیا تھا۔
اسی طرح کی پابندیاں فلپائن، سری لنکا، ملائیشیا اور موزمبیق نے بھی عائد کی ہیں۔
سفارتی تعلقات
چین کے وزارت خارجہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے، روس، پاکستان، کوریا، بیلاروس، فرانس، جرمنی، ملائیشیا اور یونیسیف سمیت دیگر ممالک کی جانب سے وائرس سے لڑنے میں چین کی معاونت کرنے اور تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
وزارت کے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لیجیان ژاؤ نے چین کے اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ یی اور ان کے ہم منصب بشمول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ہونے والے ٹیلی فونک رابطے کی اطلاع دی۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ چینی وزارت خارجہ نے شاہ محمود قریشی کو بتایا کہ چینی حکومت پاکستانی برادری کو ہر ممکن معاونت فراہم کر رہی ہے اور انہیں اپنے شہریوں کی طرح سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کے پھیلنے پر چینی حکومت کے رد عمل کی تعریف بھی کی ہے۔
وانگ یی نے چینی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے احتیاطی اقدامات کی تفصیلات بھی فراہم کیں۔
بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے وبا سے نمٹنے میں چین کی کوششوں پر اعتماد کا اظہار کیا اور چینی قیادت سے ان کے ملک میں موجود پاکستانی برادری بالخصوص طالب علموں پر 'خصوصی توجہ' دینے پر شکریہ بھی ادا کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'پاکستانی عوام اور حکومت مشکل کی اس گھڑی میں چینی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑی ہے'۔
کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز (وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے، عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے، سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے؟
کورونا وائرس کی بیشتر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا ڈرگس دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا۔
تاہم چین میں پھیلنے والا وائرس نوول کورونا وائرس ہے جو متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چین کو اس وقت دہری پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ ووہان اور ہوبی گنجان ترین آبادی والے علاقے ہیں اور اتنی بڑی تعداد کو کسی اور جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں بلکہ اس سے مرض اور پھیل جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔