نقطہ نظر

پیمرا کا تازہ وار

منظرعام پرآنے والے مجوزہ ریگولیشن میں یہ تسلیم بھی کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ایسا کوئی ماڈل وجود ہی نہیں رکھتا۔

گزشتہ ماہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی (over the top) ٹی وی کو ریگولیٹری دائرے میں شامل کرنے کی قرارداد کے مسودے سے متعلق رائے پوچھی گئی تھی۔

سرسری یا پھر تفصیلی جائزے کے بعد ایک بار پھر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مین اسٹریم یا مرکزی ٹی وی اور ویب ٹی وی کو مساوی موقع فراہم کرنے کے بجائے اس طرح کا کوئی بھی قانون پاکستانی آئین کی شق 19 اور 19 اے کے خلاف ہے، جس میں آزادئ اظہار، پریس کی آزادی اور معلومات کے حق جیسے بنیادی حقوق کی بات کی گئی ہے۔

ہر طرح کے میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ادارے پیمرا سے متعلق قانون سازی کو آگے بڑھانے میں جب حکومت ناکام ہوئی تو حکومت نے ریگولیشن متعارف کرتے ہوئے مجوزہ قانون کو پارلیمنٹ کے مطلوبہ قانون سازی کے عمل سے بائی باس کرنے کی کوشش کی، لیکن اگر انٹرنیٹ کے مواد کو ٹی وی کے ریگولیٹری ادارے کے زیرِ اثر لانے کی مشکل، غیر قانونی اور افادیت سے عاری تجویز کو مدِنظر رکھیں تو حکومت کی یہ کوشش بھی جلد ہی ناکام ہوجائے گی۔

مجوزہ ریگولیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر انٹرنیٹ پر کسی بھی مواد نے لائسنس میں درج شرائط کی خلاف ورزی کی تو اسے فوری طور پر بلاک کرنے کے لیے پیمرا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی مدد حاصل کرسکے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ آن لائن مواد تیار کررہے ہیں، انہیں قانونی دھارے سے باہر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ریاست کو آن لائن مواد سینسر کرنے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ ایک اہم ترین نکتہ ہی بھول گئی، یعنی یہ کہ جس تیزی سے ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے، اس نے انٹرنیٹ پر مواد کو بلاک کرنے کے عمل کو بے اثر بنا دیا ہے، اب تو ایسے بہت سے طریقے دستیاب ہیں جن کے ذریعے آن لائن سینسر شپ کی کوششوں کو باآسانی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

انٹرنیٹ ایک ایسی عوامی شے ہے جسے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے بنیادی حقوق کا حصہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ تک رسائی اور استعمال ریاستی مداخلت سے پاک ہونا لازمی ہے۔

لیکن ہمارے یہاں کیا ہورہا ہے؟ ہو یہ رہا ہے کہ مجوزہ ریگولیشن کے تحت ویڈیو مواد بنانے والوں سے کہا جارہا ہے کہ اب وہ پیمرا سے لائسنس خریدیں جس کی قیمت 50 لاکھ روپے ہے، جبکہ ویب ٹی وی پر خبروں یا حالاتِ حاضرہ کی آن لائن نشریات کے لیے لائسنس کے عوض ایک کروڑ روپے لینے کا ارادہ کیا گیا ہے۔

مجوزہ ریگولیشن میں ان ویب سائٹس یا ویب پلیٹ فارمز کو یکجا کردیا گیا ہے جہاں مواد ’ٹی وی کے ہم پلہ‘ نظر آتا ہو اور صرف نان کمرشل اور غیر معاشی انٹرنیٹ صارف کے تیار کردہ مواد کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

مجوزہ قانون میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی ٹی وی کی تعریف اور ان دونوں میں فرق بتانے کے لیے بڑی ہی غیر واضح زبان استعمال کی گئی ہے، اس کے علاوہ یہ متضاد نکات سے بھرپور بھی ہے۔

مجوزہ ریگولیشن کے مطابق ویب ٹی وی ایک روایتی براڈ کاسٹ سروس ہے جس کے ذریعے مواد کو براہِ راست نشر کیا جاسکتا ہے اور ویب سائٹ پر جاکر اس کی سروس مکمل طور پر فری میں حاصل کی جاسکتی ہے، جبکہ ویب ٹی وی کی کمائی کا ذریعہ اشتہارات ہوتے ہیں۔ پھر او ٹی ٹی ٹی وی کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے کہ، یہ ذریعہ ابلاغ بڑی حد تک ایک نان لینئر ماڈل پر کام کرتا ہے جہاں موجود مواد کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے لیے سبسکرپشن کروانا لازمی ہوتا ہے، جس کی ماہانہ فیس بھی ہوتی ہے۔

ایک بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود مواد کے لیے صرف سیلف ریگولیشن ہی موزوں ترین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود مواد کی خاص نوعیت اور اس کا استعمال ٹیلی وژن پر موجود مواد کی نوعیت اور اس کے استعمال سے مختلف ہے۔ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ پر کچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے باقاعدہ تلاش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جیسے انٹرنیٹ پر پہلے کوئی خاص ویب سائٹ تلاش کی جاتی ہے اور پھر کوئی خاص مواد ڈھونڈا جاتا ہے۔

ٹیلی وژن کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر آپ ایک بٹن دبا کر ایک سے دوسرے چینل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان دونوں میں مماثلت پیدا کرنے اور انٹرنیٹ پر موجود ویڈیو مواد کو پیمرا کے دائرہ اختیار میں لانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔

اگر ریاست کے لیے بنیادی حقوق کا تحفظ ترجیحات میں شامل نہیں ہے تو بھی ایسی بہت سی اقتصادی وجوہات ہیں جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے مجوزہ ریگولیشن کو ردی میں پھینک دینا چاہیے۔

اس قسم کی ریگولیشن کے باعث او ٹی ٹی ٹی وی چلانے والی کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری کرنا تو دُور کی بات بلکہ وہ تو یہاں اپنی سروس کی فراہمی بھی ترک کردیں گی۔ جب انٹرنیٹ کے ذریعے بین الاقوامی او ٹی ٹی ٹی وی کمپنیاں دُور دراز علاقوں میں بیٹھ کر اپنا کام باآسانی سنبھال رہی ہیں ایسے میں وہ کیوں چاہیں گی کہ لائسنس کی شرائط کے مطابق ملک کے اندر اپنا مرکز کھولا جائے اور پھر ان دفاتر میں بیٹھ کر پیمرا افسران کے سرپرائز دوروں کا انتظار کیا جائے۔

منظرِ عام پر آنے والے مجوزہ ریگولیشن میں یہ تسلیم بھی کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ایسا کوئی ماڈل وجود ہی نہیں رکھتا جس کے تحت ویب ٹی وی یا او ٹی ٹی ٹی وی کو لائسنس فیس ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہو۔

ایک حکومت جو ڈیجیٹل پاکستان کا عزم رکھتی ہو (اور وزیرِاعظم اعلیٰ ٹیکنالوجی اداروں کے سربراہان کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوں)، اس کے لیے اس ریگولیشن کا لانا پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

انٹرنیٹ نے نوجوان انٹرپرینیور افراد کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کم خرچ میں باآسانی چھوٹی میڈیا کمپنیوں کا آغاز کریں، اسی طرح آن لائن مواد کے تخلیق کار اور فنکار انٹرنیٹ پر اپنے مواد کے ذریعے پیسے کمارہے ہیں، اور پھر یہی تو وہ انٹرنیٹ ہے جو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ویڈیو پلیٹ فارمز کے ذریعے آمدن کے ساتھ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کرتا ہے۔

یہ ریگولیشن ویب سائٹ پر چلنے والے ویڈیو مواد کی موجودہ صنعت کو مار دے گا، جس کے باعث ایسے ممکنہ منصوبے ادھورے رہ سکتے ہیں جن کے لیے حکومت کو حوصلہ افزا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے ہم ملک کے مزید بہترین اذہان کھو بیٹھیں گے، اور ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

اب جبکہ پرنٹ اور ٹی وی میڈیا میں تنقیدی آوازوں کو سینسر کرنے کا مقصد کم و بیش کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے اس لیے بہت سے اینکر، صحافی اور تبصرہ نگار اپنے شوز کی ریکارڈنگ اور اپنے تجزیے پیش کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔

ریگولیشن کے ذریعے انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نان نیوز ویب ٹی وی کے لیے لائسنس فیس 50 لاکھ جبکہ خبروں اور حالاتِ حاضرہ پر مبنی ویب ٹی وی چینلز کی لائسنس فیس ایک کروڑ روپے تجویز کی گئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ریاست یہ کہہ رہی ہو کہ صرف امیر اور مالدار ہی خبریں فراہم اور حالاتِ حاضرہ پر تجزیہ پیش کرسکتے ہیں۔

اب چونکہ پیمرا کا مجوزہ بل ٹی وی ریگولیٹری کے قانونی دائرے اختیار سے باہر جانے، اظہار، پریس کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو کچلنے اور ٹیکنالوجی اور میڈیا انٹرپرینیورز کے لیے ملک کے دروازے بند کرنے کا مرتکب بنتا ہے اس لیے اسے فوری طور پر ردی کی ٹوکری کی نذر کردینا چاہیے۔

پاکستان میں ایک ایسی تخلیقی اور ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کی کوششیں کی جانی چاہیئں جہاں نوجوان ٹیکنالوجی کا آزادی سے استعمال کرسکتے ہوں تاکہ ملازمت کی تلاش میں ناکامی پر وہ اپنے لیے خود سے ملازمت کے مواقع تخلیق کرسکیں۔

تنقیدی آوازوں کو خاموش کروانے، ان کے مالی ذرائع کو بند کرنے اور اختلاف رکھنے والوں کو بطورِ سزا ملک بدری پر اکسانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے. ساتھ ہی ساتھ ملکی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت ان کی رائے کا احترام بھی کیا جائے۔


یہ مضمون 2 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

اسامہ خلجی

لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی ' کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: UsamaKhilji@

www.usamakhilji.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔