دنیا

فلسطین نے امریکا اور اسرائیل سے تمام تعلقات ختم کردیے

ٹرمپ سے فون پر بات اور نہ ہی خط وصول کیا تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ فلسطینی صدر سے امن معاہدے پر مشاورت کی تھی، محمود عباس

فلسطینی اتھارٹی نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کا متنازع امن منصوبہ مسترد کرتے ہوئے واشنگٹن اور اسرائیل سے سیکیورٹی کے امور سمیت تمام نوعیت کے تعلقات ختم کردیے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ سیکیورٹی سے متعلق امور بھی مسترد کیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کے مطالبے کی حمایت

قاہرہ میں عرب لیگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین، ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کو مسترد کرتا ہے۔

عرب لیگ کے ایک روزہ ہنگامی اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اسرائیل کو آگاہ کردیا کہ ان کے اور امریکا کے ساتھ سیکیورٹی سمیت کوئی تعلقات نہیں ہوں گے۔

دوسری جانب اسرائیلی حکام نے تاحال محمود عباس کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز طویل عرصے سے فلسطینیوں کے زیر انتظام مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں کی پولیسنگ کرتی آئی ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کا امریکی سی آئی اے کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کا بھی معاہدہ ہے جو فلسطینیوں نے 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ کی امن کوششوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد بھی جاری رکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان

فلسطینی صدر نے بتایا کہ 'انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ فون پر اس منصوبے پر تبادلہ خیال کرنے سے انکار اور معاہدے کی کاپی وصول کرنے سے بھی انکار کردیا'۔

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ 'ٹرمپ نے فون پر بات کرنا چاہی لیکن میں نے انکار کردیا'۔

محمود عباس نے کہا کہ 'میں نہیں چاہتا کہ امریکی صدر یہ راگ الاپیں کہ امن منصوبے سے متعلق فلسطینی صدر سے مشاورت کی گئی تھی'۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان میں کہا تھا جس کے تحت یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

فلسطینیوں نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا تھا جو پورے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت نہیں دکھائے کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں، یہودیوں اور عسائیوں کے مقدس مقامات موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: فلسطینی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

تاہم امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا تھا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگائی گئی۔

امریکی خبررساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق امن منصوبہ تنازع کے کلیدی مسائل پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے جس کی وجہ سے ماضی میں سرحدوں سمیت امن کی کوششیں متاثر ہوئیں اور اس میں فلسطینیوں کو ریاست دینے کے لیے تقریباً ناممکن حالات موجود ہیں۔

امن منصوبے پر اقوام متحدہ اور یورپ کی جانب سے غیر جانبدارانہ ردعمل دیا گیا جبکہ اہم اسلامی ممالک نے اسے مسترد کرتے ہوئے فلسطین سے غداری قرار دیا۔