نقطہ نظر

کہا جاتا ہے چین کی چیزیں پائیدار نہیں ہوتیں؟ کیا کورونا کا معاملہ بھی یہی ہے؟

مذکر، مونث میں گڑبڑ بڑھتی جارہی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام کےمیزبان کورونا وائرس کی علامات بتارہےتھے ناک بہتا ہے، درد ہوتی ہے

ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ اداریے میں ’’2 الفاظ ’کہہ ومہ‘ پڑھے، لیکن ان کا استعمال سمجھ میں نہیں آیا، گوکہ ان 2 لفظوں کے معانی معلوم ہیں یعنی کہ جیسے کہنا۔ ایک شعر ہے

مجھ سے مت کہہ ‘تُو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی’

زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے

دیکھا آپ نے، ہم بھی شعر سے دلیل دے سکتے ہیں۔ اسی طرح ’مہ‘ کا مطلب معلوم ہے کہ چاند کو کہتے ہیں جیسے مہ وَش، مہ جبیں، مہ لقا وغیرہ۔ مگر اداریے میں جن معانوں میں استعمال ہوا ہے وہ مختلف ہیں‘‘۔

ان کا مخمصہ بجا ہے۔ دراصل ’کہہ ومہ‘ کے وہ معانی نہیں جو قاری نے سمجھ لیے ہیں۔ ’کہہ‘ فارسی کا لفظ اور اسم صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے چھوٹا، کم رتبہ۔ اسی سے ’کہتر‘ ہے، اور ’تر‘ کا مطلب ہے زیادہ۔ یعنی زیادہ چھوٹا، بہت حقیر۔ کہتر سے آگے کا درجہ ہے ’کہترین‘ یعنی سب سے چھوٹا، سب سے حقیر۔ اور ’مہ‘ کہتے ہیں بڑے کو۔

گویا ’کہہ ومہ‘ کا مطلب ہوا چھوٹا، بڑا۔ مہ سے فارسی میں ’مہتر‘ ہے یعنی بڑا، سردارِ قوم، رئیس۔ لیکن اردو میں ’مہتر‘ سڑکوں کا سردار ہوتا ہے۔ خاکروب، بھنگی کو کہتے ہیں۔ فارسی میں ’مہتری‘ کا مطلب ہے سرداری۔ اردو میں مہتر کی مونث مہترائن ہے۔

مہتر بھی 2 الفاظ کا مرکب ہے یعنی ’مہ تر‘ بمعنیٰ بزرگ تر۔ فارسی میں مہا (بکسر اول) اسی معنیٰ میں ہے یعنی بڑا، بزرگ، اعلیٰ، معزز۔ سنسکرت میں اسی معنیٰ میں ہے جیسے مہا آتما (مہاتما)، مہاراج، مہابلی (بڑا طاقتور)۔ برعظیم میں ’مہا بھارت‘ مشہور ہے جو کوروں اور پانڈوں کے درمیان 18 دن تک لڑی گئی۔ یہ جنگ حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے بہت پہلے لڑی گئی۔ کورو اور پانڈو ایک ہی دادا کی اولاد تھے اور ہندوؤں کی مقدس ہستی شری کرشن کی آشیرواد ایک پارٹی کو حاصل تھی۔

مہتر کے حوالے سے ایک لطیفہ مشہور ہے۔ علامہ اقبال کے زمانے میں تہران کی بلدیہ کے سربراہ لاہور آئے جو ’مہترِ تہران‘ کہلاتے تھے۔ علامہ نے شرارتاً اپنے دوست اور بلدیہ لاہور کے چیئرمین کا تعارف کرایا کہ یہ مہترِ لاہور ہیں۔ ایرانی مہتر تو اصل نکتہ نہیں سمجھا لیکن حاضرین میں سے جو لوگ مہتر کا مطلب جانتے تھے وہ محظوظ ہوئے اور مہترِ لاہور خفیف ہوکر رہ گئے۔

اردو کی کلاسیکی کہانی ‘داستانِ امیر حمزہ’ میں بھی مہتر قِران (ق بالکسر) موجود ہے۔ قِران عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے قریب ہونا، ملنا۔ حج اور عمرہ کا باہم ادا ہونا بھی حجِ قِران کہلاتا ہے۔ علمِ نجوم کی اصطلاح میں آفتاب کے سوا کوئی سے 2 ستاروں کا ایک برج میں جمع ہونا۔ مذکورہ داستان میں امیر حمزہ بھی صاحبِ قِران تھے۔ یاد رہے کہ یہ داستان فرضی ہے۔

علمِ نجوم کے مطابق زہرہ کا مشتری کے ساتھ ایک بُرج میں ہونا نہایت متبرک سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں تو زہرہ اور مشتری 2 بہنیں ایک گھر میں رہتی تھیں۔ 2 اچھے ستاروں کا ایک برج میں جمع ہونا ‘قِران السعدین’ کہلاتا ہے، اور قُرآن کا مطلب تو معلوم ہی ہے جس کا لغوی معنیٰ ہے پڑھنا۔ کتنے ہی مسلمان اسے پڑھنے اور سمجھنے کے بجائے چوم کر طاق میں رکھ دیتے ہیں، یا قسم اٹھانے کے کام آتا ہے۔ ماہرِ القادری کی بڑی مشہور اور مؤثر نظم ہے ‘قرآن کی فریاد’۔

مشتری پر یاد آیا کہ کچھ دن پہلے جسارت میں ایک کالم نگار نے ‘مشتری ہوشیار باش’ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے مطلب سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ یہ جملہ ایک عرصے سے اشتہارات کی زینت بن رہا ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ یہ مشتری کون ہے جسے ہوشیار کیا جارہا ہے۔ دراصل ’مشتری‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے خریدار، مول لینے والا۔ ایک شعر ہے

مشتری حسن کے بکتے ہیں تمہارے ہاتھوں

آج نیلام ہے یوسفؑ کے خریداروں کا

مشتری ایک ستارے کا نام بھی ہے جو چھٹے آسمان پر ہے۔ اس کے مذکر، مونث ہونے پر اختلاف ہے۔ امیر مینائی نے لکھا ہے کہ مشتری ستارہ مونث ہے، اور جہاں کہیں شعراء نے مذکر کہا ہے وہاں ستارہ مقصود نہیں ہے۔ لیکن منیرؔ نے تو ستارہ مشتری ہی کو مذکر باندھا ہے

ہوا ہے مشتری محبوس گویا برج عقرب میں

نظر آتے ہیں اہلِ علم و فضل اس سال زندانی

عربی میں خرید و فروخت کے لیے 2 الفاظ آتے ہیں ‘بیع و شِراء‘۔ شراء میں پہلے حرف کے نیچے زیر ہے یعنی شِراء۔ ہم اسے اب تک بالضم پڑھتے رہے۔ شراء کا مطلب ہے خریدنا۔ اس کا متضاد ’بیع‘ ہے اور یہ اردو میں زیادہ معروف و مستعمل ہے۔ بیع و شراء عام طور پر ساتھ آتے ہیں یعنی خریدنا، بیچنا۔

بیع نامہ تو اردو میں عام ہے اور بیعانہ بھی اسی بیع سے ہے۔ اسی بیع سے بیعت بھی ہے، یعنی خود کو کسی کے ہاتھ پر بیچ دینا۔ جب کوئی کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو مرشد کے حوالے کردیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے فرماں برداری کا عہد و پیمان کرنا، اور متابعت کا مطلب ہے مرید ہونا۔

’بیعت‘ مونث ہے۔ بیعت کرنا، بیعت لینا، بیعت مانگنا وغیرہ، یعنی اطاعت و فرماں برداری کا طالب ہونا۔

مذکر، مونث میں گڑبڑ بڑھتی جارہی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام کے میزبانوں میں سے ایک کورونا وائرس کی علامات بتارہے تھے ‘ناک بہتا ہے، درد ہوتی ہے’۔ یہ وائرس چین سے آرہا ہے جس کے بارے میں عام تاثر ہے کہ چین کی چیزیں پائیدار نہیں ہوتیں۔ لیکن کیا اس کا اطلاق کورونا پر بھی ہوگا؟ جہاں تک ‘ناک بہتا ہے’ کا تعلق ہے تو ممکن ہے اس کی تذکیر و تانیث بھی متنازع ہو، اور جو ناک لمبی ہو وہ مذکر کہلاتی ہو۔ لیکن ناک کٹتی ہے، کٹتا نہیں۔

ناک ہندی کا لفظ اور مونث ہے۔ آتشؔ کا مصرع ہے ‘بے حیائی سے مگر ناک نہیں کٹتی ہے’۔ ناک کنایتہً غیرت، شرم، لحاظ، عزت آبرو، بزرگی، عظمت، نمود کی چیز کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ’ناک گھسیڑنا‘ بھی مستعمل ہے۔ ناک کو فارسی میں ’بینی‘ کہتے ہیں اور مشہور محاورہ ہے ‘بیک بینی و دو گوش’۔

یہ عام طور پر کسی کو فارغ کرنے، نکالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی ایک ناک اور 2 کانوں سمیت فارغ کردیا۔ ناک بہنا، ناک اڑا دینا، ناک کاٹنا یعنی کسی کو ذلیل کرنا۔ کسی کی غلط حرکتوں پر کہا جاتا ہے ‘تم نے تو خاندان کی ناک کٹوا دی’۔ ناک اونچی ہو تو عزت بڑھتی ہے۔ ناک بھوں چڑھانا بھی کنایہ ہے۔ بدمزہ ہونا، آزردہ ہونا۔ چلیے یہ تو ناک کی روداد ہوئی، لیکن درد کے مذکر ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ درد ہوتی نہیں، ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں تو ‘ہوتی’ بھی ہوتا ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


اطہر ہاشمی

اطہر ہاشمی روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔