انہوں نے کہا کہ یہ رویہ وائرس والے دیگر امراض میں بھی نظر آتا ہے کیونکہ ارتقائی طور پر ہم اس طرح کے حالات سے متاثر ہونے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں اور بڑے ہونے پر مدافعتی نظام زیادہ پھیلتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکا میں سیزنل فلو کے دوران متعدد بچے انفلوائنزا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس مرض سے بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کی اموات بہت کم ہوتی ہیں۔
طبی ماہرین کے خیال میں بچوں کا ماحول ممکنہ طور پر اس حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے، یعنی بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں عام کورونا وائرسز کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے، جس سے ان کے اندر ایک مخصوص قسم کی مدافعتی طاقت پیدا ہوسکتی ہے مگر وہ زندگی بھر ساتھ نہیں رہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر بچے بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور بیماری سے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں جبکہ ویکسینیشن کا عمل بھی بچوں میں اپ ٹو ڈیٹ ہوتا ہے۔
مگر محققین نے خبردار کیا کہ فی الحال یہ صرف خیالات ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے اس نئے وائرس سے متاثر نہیں ہوسکتے یا دیگر افراد میں منتقل نہیں کرسکتے۔
انہوں نے بتایا کہ زندگی کے معمولات لوگوں کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جیسے ہاتھوں کی اچھی صفائی مددگار ہوتی ہے، صحت بخش غذا کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، چاہے وائرس کوئی بھی ہو، مگر اچھے معمولات صحت مند رکھ سکتے ہیں۔