مگر کمپنی نے اپنے نئے بیان میں کہا ہے کہ وہ اب بھی گوگل سروسز کو اپنے فونز میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ہواوے کے آسٹریا میں کنٹری منیجر فریڈ وانگ فائی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اگر امریکی پابندیاں ختم ہونے کے بعد بھی کمپنی گوگل سروسز کی جانب واپس نہیں جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہواوے مزید امریکی سیاست پر انحصار نہیں کرنا چاہتی جس سے مستقبل میں کمپنی کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
مگر اس بیان کے فوری بعد ہواوے کی جانب سے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کردیا گیا۔
ٹیکنالوجی سائٹ دی ورج کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ اوپن اینڈرائیڈ ایکوسسٹم بشمول گوگل موبائل سروسز تاحال ہماری والین ترجیح ہے مگر ہم اسے استعمال نہ کرسکے تو ہمارے پاس اپنا ایکوسسٹم تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔
ہواوے تاحال اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرسکتی ہے کیونکہ وہ اوپن سورس ہے مگر وہ اپنے فونز میں گوگل سروسز کو شامل نہیں کرسکتی۔
گزشتہ سال کے فلیگ شپ فون میٹ 30 پرو اور آئندہ ماہ متعارف کرائے جانے والے پی 40 سیریز کے فونز یا دیگر ڈیوائسز میں گوگل سروسز موجود نہیں ہوں گی اور ہواوے کی جانب سے اس حوالے سے اپنی موبائل سروسز کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے۔
تاہم ہواوے کی جانب سے ان سروسز اور ایپس کی تیاری کے بعد بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ چین سے باہر دیگر ممالک میں صارفین کس حد تک اس کمپنی کے فونز کو پسند کرتے ہیں جو یوٹیوب، جی میل اور دیگر گوگل سروسز کے عادی ہیں۔
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہواوے کی جانب سے گوگل ایپس کے متبادل کی دریافت کے لیے تیزی سے کام کیا جارہا ہے کیونکہ پی 40 سیریز کو مارچ میں پیش کیا جانا ہے۔
ہواوے کی جانب سے دنیا کے مختلف شہروں میں ڈویلپرز کے لیے ایونٹس کا انعقاد ہورہا ہے، جہاں کمپنی کی جانب سے ایپس بنانے پر نقد انعامات کا وعدہ کیا جارہا ہے۔
ہواوے کی جانب سے ایپس کی تیاری کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ مئی 2019 میں امریکا نے ہواوے کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے امریکی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار سے روک دیا تھا اور ہواوے کو پرزہ جات کی فراہمی کے لیے امریکی کمپنیوں کے لیے خصوصی حکومتی لائسنس کی شرط عائد کی گئی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہواوے کو امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر بلیک لسٹ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس کے آلات جاسوسی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، چینی کمپنی نے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے۔