ملیے پاکستان کے کم عمر ترین ’کوہِ پیما‘ سے
سطحِ سمندر سے 26 ہزار 400 فٹ کی بلندی پر واقع پاکستان کی چوتھی بلند ترین چوٹی ’براڈ پیک‘ (Broad Peak) کو محض 17 سال کی چھوٹی سی عمر میں سَر کرنے والے شہروز کاشف نے منفرد ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ’براڈ بوائے‘ کے نام سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ اب انہیں سرچ انجن ’گوگل‘ بھی شہروز کاشف کی جگہ ’براڈ بوائے‘ کے نام سے جانتا اور دنیا سے متعارف کرواتا ہے۔
’براڈ بوائے‘ اہلِ سوات کی مہمان نوازی کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں ان کے اعزاز میں پروگرام ہوئے، مگر سوات میں ہونے والا پروگرام ہر لحاظ سے مثالی اور یادگار رہا۔
شہروز پُرجوش انداز میں اپنے تجربات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ براڈ پیک کو سب سے پہلے انہوں نے ’کے ٹو بیس کیمپ‘ سے دیکھا تھا۔ 2014ء میں محض 12 سال کی عمر میں وہ ’کے ٹو بیس کیمپ‘ (کنکارڈیا) پہنچے تھے۔ ’وہاں میری نظر ایک چوٹی پر پڑی۔ میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ’براڈ پیک‘ ہے۔ مجھے اس سے عشق ہوگیا۔ یہ مجھے دیگر پہاڑوں سے بالکل مختلف دکھائی دیا۔ اس کا ٹاپ ایک میدان پر مشتمل ہے، اور اسی حوالہ سے اسے ’براڈ پیک‘ کہتے ہیں‘۔
شہروز کاشف براڈ پیک پر پاکستانی پرچم لہرانے والے سب سے کم عمر کوہِ پیما ہیں، لیکن ان کو یہ اعزاز اتنی آسانی سے نہیں ملا ہے۔ اس کی خاطر انہوں کافی پاپڑ بیلے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’2 سال قبل 2018ء میں بھی میں نے اپنی اس محبوب چوٹی کو سَر کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس وقت مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ براڈ پیک تم بہت بُرے ہو!‘
نوعمر نوجوان شہروز کاشف آہنی اعصاب کے مالک ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اپنے مقصد میں ناکامی کے ٹھیک ایک سال بعد وہ اپنے منتشر ذہن کو یکجا کرکے ایک بار پھر رختِ سفر باندھتا ہے اور صبر آزما مسافتوں کے بعد دنیا کی 12ویں بلند ترین چوٹی ’براڈ پیک‘ پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر ہی واپس لوٹتا ہے۔ ایسے باہمت نوعمر نوجوانوں کے لیے شاعر کیا خوب فرما گئے ہیں کہ
زندہ رہنے کی تمنا ہو، تو ہوجاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے
شہروز کاشف براڈ پیک کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد کا منظر پُرجوش انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ’ٹاپ پر پہنچنے کے بعد میں بے ساختہ سجدے میں گرگیا۔ سجدۂ شکر ادا کرنے کے بعد میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ میں نے اس لمحے سوچا کہ یہ میرے پیدا کرنے والے کا مجھ پر خاص کرم ہے کہ کھیلنے کودنے کی عمر میں مجھے یہ توفیق دی کہ دنیا کی 12ویں اور پاکستان کی چوتھی بڑی چوٹی میرے قدموں کے نیچے تھی۔ اس کیفیت کو بیان کرنے سے الفاظ عاجز ہیں‘۔
براڈ پیک پر پہنچنے، سجدۂ شکر ادا کرنے اور مکمل طور پر پُرسکون ہونے کے بعد شہروز کہتے ہیں کہ ’میں نے وائرلیس فون کے ذریعے نیچے بیس کیمپ پر اپنی کامیابی کی اطلاع دی، جہاں سے سیٹیلائٹ فون کے ذریعے میرے والدین کو مطلع کیا گیا کہ آپ کا جگر گوشہ پاکستان کا کم عمر ترین 8 ہزاری (eight thousander) کوہِ پیما بن چکا ہے۔