نقطہ نظر

سوچیے اگر آج چوہدری نثار پنجاب اسمبلی میں ہوتے

اس اسکیم کے تصور میں چوہدری نثار پنجاب کے تاجدار کے طور پر نظر آئے جبکہ پی ٹی آئی کے اقتداری خواہشمند انہیں تکتے رہے۔

ہمارا یہ پیارا ملک ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت کے سبب ہمیں حیران کرنے سے کبھی نہیں چوکتا۔ اکثر و بیشتر تو اس کے تخیل کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ناممکنات سے بھرپور داستان بھی مات کھا جائے۔

جبکہ جو چیز اسے باندھے رکھتی ہے وہ یہ کہ ان تصورات کے انوکھے پن کو ماضی کی مثالوں سے تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ وہی ماضی جہاں ایک لمحے میں جو خیال ناممکن سا لگتا وہ اگلے ہی لمحے معمولی سی مزاحمت کے ساتھ حقیقت کا روپ لیے کھڑا نظر آتا۔

ان دنوں پنجاب کو اسی قسم کے ناممکن خیال یا رائے کا سامنا ہے۔ علم و دانش کی پیکر شخصیات یہ دعوٰی کرتی ہیں کہ انہوں نے قسمت کے ستاروں کی چالیں بھانپ لی ہیں اور یہ شخصیات اس بات پر مصر ہیں کہ جلد ہی صوبے کی وزراتِ اعلیٰ کا قلمندان سردار عثمان بزدار سے لے کر چوہدری نثار علی خان کو سونپ دیا جائے گا۔

مشکل میں پھنسے عثمان بزدار کو حمایت کا یقین دلانے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان کے لاہور آنے تک یہ پیش گوئیاں بار بار سننے کو ملتی رہیں۔ تاہم چونکہ خطرہ پوری طرح ٹلا نہیں ہے لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ چکری کے چوہدری نثار کا نام ان کے ان رضاکار اسپانسرز کے ذرخیز اذہان میں منڈلاتا رہے گا جو منظرِ عام پر آنے کے منتظر ہیں۔

سینئر سیاستدان چوہدری نثار کو تختِ لاہور پر بٹھانے کے خواہشمند افراد نے جن اسکیموں کا سہارا لیا انہیں کم سے کم تخیلاتی طور پر تو مقامی معیار کا حامل ہونا چاہیے تھا۔

اسکیم نمبر ایک کے تحت انہیں پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت کی قیادت سنبھالنا تھی۔ اس اسکیم میں دیگر معاملات کے ساتھ ایک یہ بھی معاملہ تھا کہ اس کے تحت چوہدری پرویز الہیٰ اور اقتدار کے خواہاں وفادار جتھے کو تھوپے گئے اس فیصلے پر سرِخم تسلیم کرنا پڑتا، بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں اعلیٰ عہدوں کے لیے کچھ لوگوں کو ان پر ترجیح دی گئی لیکن انہوں نے ان کی حمایت کی۔

اس زبردست اسکیم کے تصور میں چوہدری نثار پنجاب کے تاجدار کے طور پر نظر آئے جبکہ پی ٹی آئی کے سارے اقتداری خواہشمند صف باندھے انہیں تکتے ہوئے دکھائی دیے۔

پارٹی کے اندر جن لوگوں نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالنے کی امیدیں پالی ہوئی تھیں انہیں نہ صرف حکام بلکہ وزیرِاعظم کی آواز میں شامل سختی نے بظاہر چپ کرادیا۔

انہوں نے حال ہی میں خیبرپختونخوا میں 3 وزرا کو چلتا کرتے ہوئے اپنے وار کا محض نمونہ دکھایا تھا۔ یہ سوچنے کی ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ پنجاب کے معاملے میں زیادہ لچک کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، بھلے ہی دونوں صوبوں کے نمبروں میں کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو، جو موازنہ کرنے والوں کو بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔

ایک اور منظرنامہ بھی ہے، جو اس سے بالکل مختلف ہے، اور وہ یہ کہ چوہدری نثار 2018ء کے انتخابات کے بعد سیاسی میدان سے خودساختہ اختیار کی گئی جلاوطنی ختم کرکے اپنے روایتی مخصوص (ن) لیگی رنگ روپ کے ساتھ دوبارہ میدان پر اترتے۔ دراصل یہ ایک قسم کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی سی ہوتی کیونکہ چوہدری نثار نے ایک طرح سے شستہ لہجہ اپناتے ہوئے (ن) لیگ سے راہیں جدا کرلی تھیں۔

انہوں نے بھلے ہی کچھ وقت پہلے بیمار نواز شریف کی عیادت کے سلسلے میں اپنی آمد کی خواہش کا اظہار کیا ہو، مگر اب یہ بات قصہ پارینہ تھی۔ ملکی سیاست میں دوبارہ لانے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے نئے نقشے میں وہ شہباز شریف کے سچے اور قریبی دوست کی حیثیت سے سامنے آئے اور صلح کی حکمت عملی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس اسکرپٹ کے مطابق چوہدری نثار لیگی حمایت یافتہ وزیراعلیٰ بننے تھے۔

ان کا ابھار اس مفروضے کے ساتھ جاری رہا کہ پارٹی کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لیے شہباز شریف نے نواز شریف سے قیادت حاصل کرلی ہے، اور اہلِ کلب میں اس واپسی کے لیے تو بس یہی نکتہ کافی تھا کہ وہ شریف کے ایک ایسے ساتھی تھے جنہوں نے سنگین نتائج کا باعث بننے والے خطرناک اقدامات سے پرہیز کرنے کا بار بار مشورہ دیا اور وہ اس کام کو کرنے سے مسلسل خبردار کرتے رہے۔

اسی طرح کے دیگر مزید حالات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جن سے چوہدری نثار کو ان کے نئے قابلِ قدر عہدے پر لے جانا ممکن ہو۔ ایک سب سے قوی سوچ یہ بھی تھی کہ انہیں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان پر مشتمل مخلوط حکومت کی قیادت سونپ دی جائے، اس کے لیے پالیسی سازوں کو پنجاب اسمبلی کے اندر مسلم لیگ (ن) کا فارورڈ بلاک تشکیل دینا پڑتا۔ تاہم آخر میں یہ ساری اسکیمیں نہ صرف ناپختہ بلکہ نہایت غیر ضروری بھی محسوس ہوئیں۔

وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر ان کی موجودگی سے متعلق سارے اندازوں کی بنیاد ان کے اپنے اس خیال پر تھی کہ اس عہدے کے لیے انہیں پہلے سے چن لیا گیا ہے، اور مزے کی بات یہ کہ یہ بات کسی نہ کسی طرح ان تک پہنچ بھی گئی تھی۔ لیکن اس مقصد کو کس طرح پایا جانا تھا اس حوالے سے ساری تفصیلات اتفاقی اور خالصتاً علمی تحقیق کا موضوع ہیں۔

استعفے کے غالب خیال کے ساتھ چوہدری نثار کی ممکنہ آمد کی خبر کا جس انداز میں چند لوگوں نے خیر مقدم کیا وہ کافی حیران کن منظر تھا۔ سیاسی میدان میں ایک ایسے شخص کی آمد ہوگئی تھی جس نے بطورِ رکن پنجاب اسمبلی حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، جس وجہ سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کہیں انہوں نے اس قانون ساز ادارے کو اپنے لیے حقیر یا بہت ’جونیئر‘ تو نہیں تصور کرلیا۔

بدقسمتی سے چوہدری نثار 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست جیت نہ سکے۔ اب اس بارے میں تو اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں کہ اگر وہ جیت جاتے تو کیا وہ پارلیمنٹ سے دُور رہ رہے ہوتے۔ شاید وہ خود کو حلف اٹھانے پر قائل کرچکے ہوتے، یا شاید ایسا نہ کرپاتے۔

ہم اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے ہیں۔ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں ایک صوبائی حلقے کے عوام نمائندگی سے محروم ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے جس شخص کو منتخب کیا تھا اس نے کسی وجہ سے ایوان کی کارروائیوں میں حصہ لینا پسند نہیں کیا۔

یہ عین ممکن ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں میں یہ بات سنجیدہ مباحثے کا موضوع بن جاتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اب تک قانون سازی کرنے والے ایک ایسے قانون کی منظوری کے لیے دباؤ کی زد میں ہوتے جس کے تحت منتخب رکن کو اسمبلی میں حلف اٹھانا لازمی قرار دیا جاتا۔ افسوس کے ساتھ ایسا کوئی قانون پاکستان میں موجود نہیں جس کی وجہ سے ایک ایسے شخص کو نامناسب انداز میں ایک ایسا عہدہ اپنے پاس رکھنے کا موقع مل جاتا ہے جسے وہ حقیر سمجھتا ہے۔

متعدد بار آسانی سے انتخابات جیتنے اور حکومتوں کا حصہ رہنے والے سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان موجودہ پنجاب اسمبلی کے لیے کسی اثاثے سے کم نہ ہوتے۔ رکن کی حیثیت میں لاہور کو ایک قابلِ قدر سیاستدان دیتے ہوئے وہ اپنے تجربات سے اس ایوان کو جلا بخش سکتے تھے۔

مگر انہوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں منتخب کرنے والوں سے اس سے بڑی دغا بازی کیا ہوسکتی ہے۔ انہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا اس نظام کے لیے کسی تذلیل سے کم نہیں۔


یہ مضمون 31 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

اشعر الرحمٰن

لکھاری لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔