اوور لوڈ گاڑیوں کے باعث شاہراہوں کے نقصان کی تلافی افسران کریں گے، عدالت
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے واضح کیا ہے کہ اگر گنجائش سے زائد وزن سے لدی (اوور لوڈ) گاڑیوں سے شاہراہوں اور موٹر ویز کو نقصان ہوا تو سرکاری محکمے اور متعلقہ حکام سے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔
عدالت نے یہ حکم ایکسل لوڈ پالیسی پر عملدرآمد کے لیے دائر درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے دیا۔
مذکورہ درخواست ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی ایم/ایس جے زی انٹرپرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ نے اپنے وکیل عارف چوہدری کے توسط سے دائر کی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت مواصلات کی جانب سے 6 جون کو جاری کیا گیا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جس میں ایکسل لوڈ قانون کے نفاذ کو 90 روز تک مؤخر کردیا گیا تھا، حکومت اس پالیسی پر عملدرآمد متعدد مرتبہ ملتوی کرچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: گڈز ٹرانسپورٹرز کے مذاکرات کامیاب، ہڑتال ختم کرنے کا اعلان
ایکسل لوڈ کے حوالے سے آرڈیننس 2000 میں پیش کیا گیا تھا لیکن ٹرانسپورٹرز کی مضبوط لابنگ کی وجہ سے اس پر عملدرآمد مؤخر کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاہم موجودہ حکومت نے ایکسل لوڈ قانون پر سختی سے عملدرآمد کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
متعدد تجارتی اور صنعتی تنظیموں کی جانب سے حکومت سے ایکسل لوڈ پالیسی پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا جاچکا ہے کیوں کہ اس سے مال برداری کی لاگت میں 100 گنا اضافہ ہوجائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس مینا گل حسن کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ’قانون کے مقرر کردہ ایکسل لوڈ کی خلاف ورزی کی وجہ سے قومی شاہراہوں اور موٹرویز کو پہنچنے والے نقصان کے سبب قومی خزانے میں ہونے والے خسارہ، ان سرکاری عہدوں پر فائز افراد اور سرکاری محکموں کے ذاتی اکاؤنٹس سے وصول کیا جائے گا جنہوں نے ایکسل لوڈ قانون پر عملدرآمد مؤخر کرنے کا حکم دیا‘۔
علاوہ ازیں عدالت نے ایڈووکیٹ کاشف علی ملک کو اس معاملے میں عدالتی معاون بھی مقرر کردیا۔
مزید پڑھیں: گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال 10 روز بعد ختم
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ ٹرانسپورٹرز اور حکومت کے درمیان سمجھوتے کی وجہ سے ایکسل لوڈ کی مقررہ حد پر عمل درآمد مؤخر کیا جارہا ہے۔
جس کے نتیجے میں قومی شاہراہوں کو بھاری گاڑیوں پر ضرورت سے زائد وزن لادنے کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔
عدالتی معاون نے بینچ کو بتایا کہ آرڈیننس عوامی مفاد میں جاری کیا گیا تھا اور یہ وزارت مواصلات اور اس کے ماتحت قانونی محکموں کی ذمہ داری تھی کہ آرڈیننس کی ہر شق پر اس کی روح کے مطابق عمل کروایا جائے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مذکورہ آرڈیننس حکومت (وزارت مواصلات اور اس کے ماتحت محکموں) یا کسی سرکاری افسر کو ایکسل لوڈ قانون پر عملدرآمد مؤخر کرنے کا اختیار نہیں دیتا اور نہ ہی آرڈیننس میں ایسی کوئی شق موجود ہے جس سے حکومت کو مذکورہ آرڈیننس کی شرائط پر پورا اترنے سے استثنیٰ یا مؤخر کرنے کی صوابدید مل جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے ٹرانسپورٹ پلان کیلئے 7 کروڑ ڈالر قرض منظور
اس قسم کی حدود میں مقننہ کے ذریعے آرڈیننس میں ترمیم کر کے تبدیلی کی جاسکتی ہے صرف حکومت ایسا نہیں کرسکتی۔
عدالت کے علم میں یہ بات آئی کہ حکومت کی جانب سے ایکسل لوڈ پالیسی پر عملدرآمد مؤخر کرنے کی ہدایات ’بغیر قانونی اختیار کے جاری کی گئی‘۔
عدالت نے حکم دیا کہ آرڈیننس کی شقوں کے مطابق ایکسل لوڈ پالیسی پر لازمی اور سختی سے عمل ہونا چاہیے۔
یہ خبر 30 جنوی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔