’خلیل الرحمان قمر کو نوبیل انعام دیا جائے‘
آئیے ماضی میں چلتے ہیں۔
یہ پی ٹی وی کا سنہری دور ہے۔ لاہور سینٹر سے ‘الف نون‘ شروع ہونے کو ہے، کچھ برس بعد کراچی مرکز ‘خدا کی بستی’ نامی شاہکار ڈراما ٹیلی کاسٹ کرے گا۔ پھر ‘پت جھڑ کے بعد’، ‘وارث’، ’جھوک سیال’ اور ’ایک محبت سو افسانے’ ظاہر ہوں گے ۔
جناب، یہ وہ دور ہے، جب ڈرامے کو وقار ڈراما نگار بخشتا تھا۔ چائے خانوں میں، بسوں بازاروں میں تذکرہ ان ڈراموں کا کچھ یوں ہوا کرتا: ’کمال احمد رضوی کے قلم سے نکلا کھیل ہے، اشفاق احمد کا ڈراما ہے بھائی، اسکرپٹ امجد اسلام امجد نے لکھا ہے‘۔
ہدایتکار لاکھ اہم، مگر ذکر اس کا ڈراما رائٹر کے بعد ہی ہوتا۔ اداکار بے چارے کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ اس کی قسمت کا کُلّی انحصار ڈراما نگار اور ہدایتکار کی ابرو کی جنبش پر ہوا کرتا۔
مگر جیسا کہ ایک گیانی نے کہا تھا: ’پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر’ اور ‘بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا’، تو آخر ایک رات بادل چھٹ گئے۔ چاند نکل آیا۔ ہر سو چاندی پھیل گئی اور اس کی روشنی نے ڈراما نگاری کو منور کردیا، بیاناں میں ایک پکار سنائی دی: خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد ہوچکی تھی۔
وہی خلیل الرحمٰن قمر، جسے آمد ہوتی ہے، مکالمے اترتے ہیں اور جو اترنے والے مکالمے کو جوں کا توں ناظرین کے سامنے پیش کردیتا ہے، اور پھر ناظرین انہیں کہیں اپنے دل کے نہاں خانوں میں حرکت کرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
وہی خلیل الرحمٰن قمر، جسے یقین ہے کہ صرف تاریخ ہی اس کی بابت حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور جسے اعتماد ہے کہ کل آپ کے ہمارے بچے اس کا لکھا ڈراما پڑھیں گے۔
صاحبو، یہ وہی خلیل الرحمٰن قمر ہے، جس کے حیران کر دینے والے دبنگ اعتماد نے روشن خیال اور فیمنسٹ طبقات میں کھلبلی مچا دی۔ جو تنِ تنہا کئی تنظیموں، تنازعات اور بیانیوں سے ٹکرا گیا۔ (اس سے قبل ایسا اعتماد صرف جناب عمران خان میں دکھائی دیا تھا)۔
شاید آپ راقم کے الفاظ کو طنز یا استہزائیہ خیال کریں، مگر ایک بار، فقط ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں، کیا اس شیر دل انسان نے طوفانوں کے اس دور میں ڈراما رائٹر کی عزت بحال نہیں کی؟ ورنہ تو ڈراما نگار ’دو ٹکے کا آدمی تصور کیا جاتا تھا‘۔
کل تک فقط شاعر اور ادیب تنک کر ناقد سے یہ کہہ سکتے تھے کہ ’جناب آپ نے مجھے پڑھا نہیں ہے!’ لیکن خلیل الرحمٰن قمر کی آمد کے بعد اب ایک ڈراما نگار بھی کہہ سکتا ہے، جناب بڑبڑ کرنے سے پہلے مجھے پڑھ کر آئیں۔ (یعنی ٹی وی سے نشر ہونے والا میرا ڈراما دیکھیں)
آپ کا ہاتھ کہاں ہے؟ اسے ایک بار اپنے دل پر رکھ لیجیے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہوا اور یہ سب خلیل الرحمٰن قمر کے طفیل ممکن ہوا۔
اور کیا یہ داستان نوبیل انعام کی حقدار نہیں؟
آپ کا ہاتھ کہاں ہے؟ اسے ایک بار پھر دل پر رکھ لیں اور جواب دیں۔ کیا ہم عہد خلیل میں زندہ نہیں ہیں؟
اقبال خورشید کالم نویس، انٹرویو کار، فکشن نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ ’ون منٹ اسٹوری‘ کے عنوان سے صحافتی کہانیاں لکھتے ہیں، ایک ادبی جریدے’ اجرا‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، سماج، ادب اور شہر کراچی اُن کے موضوعات ہیں۔