اس وائرس سے دنیا بھر میں 6 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 132 ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور چین کے علاوہ آسٹریلیا سمیت 18 ممالک میں اس کے کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ڈورتھی انسٹیٹوٹ کے وائرس آئیڈنٹیفکیشن لیبارٹری کے سربراہ جولیان ڈریوس نے ایک بیان میں بتایا 'چینی حکام نے اس ناول کورونا وائرس کا جینوم سیکونس جاری کیا تھا جو اس کی تشخیص کے لیے مددگار ہے، مگر اس حقیقی وائرس کے حصول سے ہمارے پاس ٹیسٹ کے طریقہ کار کے مستند ہونے کی صلاحیت ہوگی اور اس کی حساسیت اور خصوصیات کا موازنہ کرنا ممکن ہوگا، یہ تشخیص کے لیے گیم چینجر ہوگا'۔
انہوں نے بتایا کہ وائرس کی نقل کو آسٹریلیا کی پبلک ہیلتھ لیبارٹریز میں استعمال کرکے دیکھا جائے گا کہ علاج کا کوئی مخصوص طریقہ کار اس پر کام کرتا ہے یا نہیں جبکہ اسے عالمی ادارہ صحت کے یورپ میں کام کرنے والے ماہرین کو بھی بھیجا جائے گا۔
ڈورتھی انسٹیٹوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیک کاٹون نے ایک بیان میں کہا کہ وائرس کے نمونے سے ماہرین مالیکیولر ٹیکنالوجی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اس کا مقابلہ کرسکیں گے۔
تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ ان کوششوں سے ایک اینٹی باڈی ٹیسٹ کی تشکیل میں مدد ملے گی جو دکھا سکے گا کہ کسی فرد کا مدافعتی نظام اس وائرس کے خلاف متحرک ہوا ہے یا نہیں۔
سائنسدانوں نے وضاحت کی کہ ایک اینٹی باڈی ٹیسٹ سے ہم مشتبہ مریضوں کے retrospectively ٹیسٹ کے قابل ہوجائیں گے، جس سے ہمیں اس وائرس کے پھیلاﺅ کی زیادہ مستند تصویر بناسکیں گے اور دیگر پہلوﺅں بشمول موت کی شرح کا اندازہ لگانا ممکن ہوگا۔
ان کے بقول اس سے ویکسین کے ٹرائل کی افادیت کا تخمینہ لگانے میں بھی معاونت ملے گی۔
اس ٹیم نے ایک ویڈیو میں کورونا وائرس کو بھی دکھایا۔