دنیا

یورپین پارلیمنٹ نے اتحاد سے برطانیہ کی علیحدگی کی حتمی منظوری دے دی

برطانیہ 31 جنوری کو یورپی یونین سے باضابطہ طور پر الگ ہوجائے گا جس کے بعد نئے سرے سے تعلقات قائم کیے جائیں گے۔

یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے برطانیہ کو تقریباً نصف صدی بعد اتحاد سے علیحدگی کے لیے حتمی منظوری دے دی جس کو اتحاد کے استحکام کے لیے ایک دھچکا تصور کیا جارہا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی پارلیمنٹ میں مسکراہٹوں اور سسکیوں سے بھرپور جذباتی مباحثے کے بعد بریگزٹ معاہدے کی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوئی جس کے حق میں 621 اور مخالفت میں صرف 49 اراکین نے ووٹ دیا۔

رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی 27 رکن ریاستوں نے گزشتہ برس اکتوبر میں ووٹ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:لندن: برطانوی دارالعوام نے بریگزٹ معاہدے کی منظوری دے دی

بریگزٹ معاہدے کی ووٹنگ کے دوران 13 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ نہیں دیا اور ووٹنگ کے عمل کے بعد برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 73 اراکین کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں روایتی گیت بھی گائے گئے۔

قبل ازیں برطانوی سفیر نے دستاویزات یورپی یونین کے سینئر عہدیداروں کو تقریب میں پیش کی جہاں یورپی یونین اور برطانیہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔

یورپی پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظوری کے بعد برطانیہ جمعے کو یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا جہاں وہ 1973 میں داخل ہوا تھا اور یورپی یونین کے دفاتر سے برطانیہ کا جھنڈا بھی اتار دیا جائے گا اور یورپی یونین کے جھنڈے کو سرنگوں رکھا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے تمام معاملات سال کے اواخر تک مکمل ہوجائیں گے اور تجارت، سیکیورٹی سمیت دیگر تمام معاملات پر نئے تعلقات کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

یورپی یونین کمیشن کے سربراہ ارسولا ون ڈیر لیئن کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا خیال ہے کہ تجارتی معاہدوں میں ٹیرف اور کوٹہ صفر ہوگا لیکن شرائط یہ ہیں کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان کاروباری مسابقت کے لیے برابری کی سطح پر مواقع میسر ہوں گے اور ہم اپنی کمپنیوں کو غیر متوازن مسابقت سے دوچار ہونے نہیں دیں گے’۔

یورپی یونین کی جانب سے مذاکرات کرنے والے وفد کے سربراہ مائیکل بارنیئر نے دیگر 27 اراکین کے نمائندوں کو بریفگ دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کو یوکرین کے ساتھ الحاق جیسے کمزور معاہدوں کو نئے رشتوں کی بنیاد پر رکھنا چاہیے۔

یاد رہے کہ برطانوی دارالعوام نے 10 جنوری کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری دی تھی جس کے تحت برطانیہ 31 جنوری کو یورپی یونین سے الگ ہونے کے امکانات واضح ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں:یورپی یونین،برطانیہ بریگزٹ معاہدے کیلئے ‘تعمیری’ مذاکرات میں تیزی لانے پر متفق

دارالعوام میں رائے شماری کے دوران بریگزٹ معاہدے کی حمایت میں 330 اور مخالفت میں 231 ووٹ ڈالے گئے۔

بعد ازاں دارالامرا سے 23 جنوری کو بل منظور ہوا تھا اور اسی روز ملکہ ایلزبیتھ نے بل پر دستخط کردیے تھے جو قانون بن گیا تھا جس کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہوگئی تھیں۔

واضح رہے کہ 26 جون 2016 کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ کو کامیاب بنایا تھا تاہم یورپی یونین سے کس طرح نکلا جائے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی کہ بغیر معاہدے، یونین کو چھوڑنے کا ڈر خوف برطانوی عوام اور سیاستدانوں کو ستانے لگا۔

بریگزٹ کا معاملہ کئی برس سے زیر بحث تھا اور بریگزٹ کی منظوری میں ناکامی پر برطانوی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

جولائی 2016 میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا بریگزٹ میں تاخیر کا فیصلہ

مستقل ناکامی کے بعد تھریسا مے نے گزشتہ برس 24 مئی 2019 کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اسی سال 23 جولائی کو برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن اگلے وزیر اعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے آخری مرحلے میں کنزریٹو پارٹی کے قائد اور برطانیہ کے اگلے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔

بورس جانسن کو بھی لیبر پارٹی کے اکثریتی ایوان میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بریگزٹ کے حق میں قانون منظور نہ کروا سکے تھے جس کے بعد انہوں نے نئے انتخابات کی تجویز پیش کی جس کو اپوزیشن جماعت نے تسلیم کیا اور یوں دسمبر 2019 میں برطانیہ میں پھر انتخابات ہوئے۔

انتخابات میں بورس جانسن کو اکثریت حاصل ہوئی اور جنوری میں ہی معاملہ پارلیمنٹ میں آیا جہاں سے باآسانی بل منظور ہوا اور ملکہ ایلزبیتھ کے دستخط کے بعد بریگزٹ کا بل باقاعدہ طور پر قانون بن گیا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

مواخذے کی کارروائی:آخری لمحات میں گواہی کیلئے بولٹن کی آمد پر ٹرمپ سیخ پا

پی ٹی ایم رہنماؤں کی گرفتاری: 'جو ملک کا قانون توڑے گا گرفتار ہوگا'

آسٹریلین اوپن: نڈال کا گرینڈ سلیم ریکارڈ بنانے کا خواب چکنا چور