ڈرامے کی آنکھ سے دکھائی دینے والا معاشرہ
آج موجودہ دور میں امریکا جیسے ملک کی بھی شہرت اور شناخت کا ایک بڑا ثقافتی حوالہ وہاں کی فلمی صنعت ہے، جس کو عرفِ عام میں ’ہولی وڈ’ کہا جاتا ہے۔ یونہی ایک دور ہوا کرتا تھا، جب دنیا بھر میں پاکستان کے ڈرامے ہماری ثقافت کا تعارف تھے، نہ صرف یہی بلکہ پاکستان کے عوام کی تربیت کا کام بھی ٹیلی وژن کے میڈیم سے لیا گیا اور اس کے اثرات پڑوسی ممالک تک بھی پہنچے۔
ان ملکوں میں ہندوستان سرِفہرست تھا، جہاں فنِ اداکاری کے رموز سکھانے والے اداروں نے بھی اس وقت کے پاکستانی ڈراموں سے استفادہ کیا، جس کا اعتراف بارہا کیا جاچکا ہے۔
پاکستان کے شعر و ادب پر بھی ان ڈراموں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انہوں نے زندگی کے فریم ورک میں ایسے مناظر تخلیق کیے، جن کی چھاپ فنونِ لطیفہ کے ہر شعبے میں دکھائی دی، لیکن جس ڈھب سے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہوا، دیگر شعبوں کی طرح ڈرامے کی صنعت بھی اپنا وجود کھونے لگی۔
یہ 2، 4 دن کی بات نہیں، کئی دہائیوں کا قصہ ہے، کس طرح ہمارے معاشرے پر زوال آیا اور ڈرامے پر کاری ضرب لگی۔ ایک زمانہ تھا، جب ڈراما اور معاشرہ دونوں صاحبِ کردار ہوا کرتے تھے۔
پاکستانی ڈراما صنعت کی ابتدا
پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کی ابتدا 60 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہوئی۔ لاہور اور ڈھاکہ مراکز سے شروع ہونے والی نشریات نے برق رفتاری سے دیگر شہروں میں اپنا دائرہ کار بڑھایا اور نشریات میں توسیع ہوتی چلی گئی۔
ابتدائی طور پر درآمدی مواد سے کام چلایا گیا، لیکن پھر بہت جلد پاکستان ٹیلی وژن نے اپنی پروگرام سازی شروع کی، جس میں ڈراما اوّلین ترجیح تھی۔ پی ٹی وی کا پہلا ڈراما ’نذرانہ’ تھا، جس میں محمد قوی خان سمیت دیگر اداکاروں نے کام کیا جبکہ پہلی باقاعدہ ڈراما سیریز ’ٹاہلی’ تھی، جس کے مصنف اشفاق احمد تھے۔
ڈرامے کا سنہری دور
60 کی دہائی میں شروع ہونے والا سفر 90 کی دہائی تک بامِ عروج کو جا پہنچا۔ ان ڈراموں نے معاشرے میں تہذیب و تمدن کی آبیاری، کئی نسلوں کی ذہنی تربیت، ساتھ ساتھ ڈرامے اور فلم کے بہترین ذوق کو تعمیر کیا۔
یہ 3، 4 دہائیاں پاکستان کی ثقافتی تاریخ میں کلیدی مقام رکھتی ہیں، جن میں ڈراموں کے کردار معاشرے سے آتے تھے اور معاشرہ اپنی کہانیوں کا عکس ڈراموں میں دیکھتا تھا۔ کہانی اور کردار ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست ہوا کرتے تھے۔ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے احساسات ان کہانیوں کا خاصا تھے۔
ان ڈراموں کی عکس بندی، زبان و بیان، مکالمے، اداکاری حتیٰ کہ ہر شے اپنی مثال آپ تھی جبکہ یہ محدود وسائل کا زمانہ تھا، لیکن اس وقت کے ڈرامے نے دیکھنے والوں کے افکار اور زندگیاں بدل کر رکھ دی تھیں۔
چند یادگار ڈراموں کا نام لیا جائے تو آج بھی ناظرین کے ذہنوں پر جو کردار اور کہانیاں نقش ہیں، ان کو ادا کرنے والے فنکاروں کو لیجنڈز کا درجہ ملا۔ ان ڈراموں میں ’تنہائیاں’، ’دھوپ کنارے‘، ’خدا کی بستی‘، ’جانگلوس‘، ’آنگن ٹیڑھا‘، ’وارث‘، ’اندھیرا اُجالا‘، ’اَن کہی‘، ’دھواں‘ اور دیگر شامل ہیں۔ ایک طویل فہرست بن سکتی ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کی غرض سے چند ناموں پر اکتفا کر رہا ہوں۔