پاکستان کی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کے مطالبے کی حمایت
پاکستان نے 1967 سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطین کی جانب سے یروشلم (بیت المقدس) کو اس کی آزاد ریاست کا دارالحکومت بنانے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
دفتر خارجہ کا مذکورہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کے اعلان کے ایک روز بعد سامنے آیا۔
ٹرمپ کے امن منصوبے سے متعلق جاری بیان میں دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے پیش کیا گیا امن منصوبہ دیکھا ہے۔
دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اتفاق کیے گئے پیرامیٹرز، 1967 سے قبل کی سرحدوں اور بیت المقدس کو فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر ایک قابلِ عمل، آزاد ریاست فلسطین کا قیام چاہتا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان
مذکورہ مسئلے سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں مغربی کنارے میں موجود تمام نئی آبادیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہے اور 1967 کی عرب – اسرائیل جنگ سے قبل کے سرحدوں کی بنیاد پر متفقہ اراضی کے تبادلوں کے ساتھ اس کے حل کا مطالبہ کرتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے فلسطین کے منصفانہ اور دیرپا حل کی حمایت جاری رکھے گا۔
دفترخارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک ایسا حل چاہتا ہے جو حقِ خود ارادیت سمیت فلسطینیوں کے تمام جائز حقوق کے حصول کی جانب لے کر جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔
فلسطینیوں نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا تھا جو پورے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت نہیں دکھائے کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں، یہودیوں اور عسائیوں کے مقدس مقامات موجود ہیں۔
تاہم امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔
امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا تھا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگائی گئی۔
امریکی خبررساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق امن منصوبہ تنازع کے کلیدی مسائل پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے جس کی وجہ سے ماضی میں سرحدوں سمیت امن کی کوششیں متاثر ہوئیں اور اس میں فلسطینیوں کو ریاست دینے کے لیے تقریبا ناممکن حالات موجود ہیں۔
امن منصوبے پر اقوام متحدہ اور یورپ کی جانب سے غیر جانبدارانہ ردعمل دیا گیا جبکہ اہم اسلامی ممالک نے اسے مسترد کرتے ہوئے فلسطین سے غداری قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا
فلسطین کے صدر محمود عباس، جنہوں نے امریکی قیادت میں اسرائیل کے ساتھ گزشتہ امن مذاکرات میں حصہ لیا تھا لیکن ٹرمپ کے منصوبے سے دور رہے تھے، انہوں نے کہا کہ یہ سازشی معاہدہ منظور نہیں ہوگا۔
انہوں نے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں مختلف فلسطینی گروہوں سے ملاقات کے بعد معاہدے کی مزاحمت پر اصرار کیا۔
محمود عباس نے کہا کہ ہمارے لوگ اسے تاریخ میں دفن کردیں گے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے امن منصوبے کو 1948 میں اسرائیل کو آزاد ملک تسلیم کیے جانے کے برابر تاریخی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اسرائیل کے لیے، امن کے لیے عظیم منصوبہ ہے‘۔