یہ ’آیت اللہ مائیک‘ کون ہے؟
افغانستان کے صوبہ غزنی میں امریکی فوج کا ایک طیارہ گر کر تباہ ہوا، اس طیارے کو امریکی فورسز ‘وائی فائی ان سکائی’ کا نام دیتی ہیں۔ یہ طیارہ افغانستان میں امریکی فورسز کے رابطوں کا اہم ذریعہ ہے، جس کی تباہی بڑی خبر ہے۔
اگرچہ امریکی وزیرِ دفاع اور پینٹاگون نے اس تباہی کی تصدیق کردی ہے لیکن اس طیارے میں کون سوار تھا، اس کا مشن کیا تھا، کتنے لوگ مارے گئے؟ ان سوالوں کا جواب ابھی تک امریکی انتظامیہ کی طرف سے نہیں مل رہا۔
ایرانی میڈیا نے روس کے انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس طیارے میں ایران، عراق اور افغانستان میں امریکی سی آئی اے کے آپریشنز کا انچارج مائیکل ڈی اینڈریا سوار تھا اور طیارے کی تباہی کے ساتھ وہ بھی مر گیا۔
افغان صوبے غزنی کے پولیس سربراہ خالد وردک کا کہنا ہے کہ اس طیارے کے ملبے تک طالبان رسائی نہیں دے رہے بلکہ ملبے تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے افغان فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں نے مار بھگایا۔ مقامی طور پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس جہاز کے ملبے سے 4 لاشیں ملیں جبکہ 2 افراد زندہ بچ گئے تھے جنہیں طالبان نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
ایرانی میڈیا کی خبر اگر درست ہے اور روس کے انٹیلی جنس ذرائع نے بلف نہیں کھیلا تو یہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں دوسرا بڑا واقعہ ہے۔
مائیکل ڈی اینڈریا خطے میں امریکا کے لیے ویسی ہی اہمیت رکھتا ہے جیسی جنرل سلیمانی کی اہمیت ایران کے لیے تھی۔ مائیکل ڈی اینڈریا کے کئی نام ہیں۔ سی آئی اے کے لیے وہ انڈر ٹیکر، ڈارک پرنس، آیت اللہ مائیک ہے تو ہولی وڈ کے لیے وہ بھیڑیا ہے، جو ہولی وڈ فلم ‘زیرو ڈارک تھرٹی’ میں دکھایا گیا۔ زیرو ڈارک تھرٹی فلم سی آئی اے آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل سے متعلق ہے۔
عام امریکیوں کے لیے وہ وجود ہی نہیں رکھتا، اس کی وجہ شاید یہی ہو کہ مائیک آج تک انڈر کور رہا ہے۔ مائیک 38 سال سے سی آئی اے میں ہے اور سیکڑوں ہلاکتوں کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے۔ مائیک ایک تندخو اور بدتمیز شخص ہے جسے اس کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ خوشدلی کے ساتھ یاد نہیں کرتے۔ گہرے رنگوں کے سوٹ پہننے کا شوقین مائیک سگریٹ نوشی کا عادی رہا ہے۔
1989ء میں سی آئی اے میں شامل ہونے والے مائیک کو 2015ء تک جاسوسی کی دنیا کے باہر کوئی نہیں جانتا تھا لیکن 2017ء میں نیویارک ٹائمز میں چھپی رپورٹ سے مائیک اور اس کے ‘کارنامے’ دنیا کے سامنے آگئے۔ مارچ 2015ء تک مائیک سی آئی اے کے انسدادِ دہشتگردی سینٹر کا ڈائریکٹر تھا جس کی نگرانی میں امریکا نے افغانستان اور دنیا بھر میں ڈرون حملے کیے۔
2 سال بعد یعنی 2017ء مائیک اس وقت ایک اور روپ میں سامنے آیا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسے سی آئی اے کے ایران آپریشنز کا انچارج بنایا۔ اس بار اس کا نک نیم ‘آیت اللہ مائیک‘ بھی سامنے آیا۔ ایران آپریشنز کی سربراہی کسی بھی دوسرے سی آئی اے اسٹیشن انچارج سے زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ تہران میں امریکی سفارتخانہ موجود نہیں، اور امریکی سی آئی اے کے اسٹیشن انچارج عموماً اپنے سفارتخانوں سے ہی آپریٹ کرتے ہیں۔ ایران مشن اس لیے بھی آسان کام نہیں کہ ایران امریکا دشمنی ڈھکی چھپی نہیں اور ایران اپنے خلاف کام کرنے والوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔
1989ء میں سی آئی اے میں شمولیت کے بعد مائیک نے ورجینیا میں امریکی ایجنسی کے ٹریننگ سینٹر میں تربیت لی اور اسے افریقہ تعینات کیا گیا۔ کئی سال افریقہ میں کام کرنے کے بعد وہ امریکا واپس آیا تو اسے سی آئی اے کے انسدادِ دہشتگردی سینٹر کی سربراہی ملی۔ عراق جنگ کے دوران مائیک بغداد میں سی آئی اے کی سینئر پوسٹ پر تعینات رہا۔ کہا جاتا ہے کہ عراق میں تعیناتی کے دوران اسے ایک مسلم خاتون ملی اور اس سے متاثر ہوکر اس نے اسلام قبول کیا اور اس خاتون سے شادی بھی کرلی۔
2006ء میں مائیک کو واپس امریکا بلوا لیا گیا اور اسے کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر (سی ٹی سی) کی سربراہی سونپی گئی۔ یہ عہدہ مشکل تصور کیا جاتا ہے جس پر کسی نے بھی 3 سال سے زیادہ کبھی کام نہیں کیا لیکن مائیک 9 سال اس عہدے پر کام کرتا رہا۔ مائیک اس عہدے پر کام کے دوران صبح سویرے دفتر پہنچ جاتا اور اکثر رات کو دیر ہونے پر دفتر میں ہی سوجاتا تھا۔ اسی عرصے میں اس نے دوبارہ سگریٹ نوشی شروع کی، حالانکہ یہ عادت وہ 10 سال پہلے چھوڑ چکا تھا۔
مائیک نے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں ڈرونز کے کردار کو بڑھایا۔ مائیک نے ڈرونز کا کردار اس قدر بڑھایا کہ طالبان کی قید میں موجود امریکی شہری بھی اس کے ڈرون حملوں میں مارے گئے۔