آسیب کہانیاں - چھٹی قسط
’میں اُدھر نہیں جاؤں گی، مجھے اِدھر ہی رہنا ہے‘
اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں قسط۔
تراڑکھل کا آسیبی ریسٹ ہاؤس
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت Food & Agriculture Organization of the United Nations - FAO کی جانب سے آزاد کشمیر میں بطور Audiovisual Specialist تعینات تھا۔ ایف اے او کے اس کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ میں پاکستان سے 4 افراد یعنی میں، چوہدری رشید، اکمل اور رضوانہ بطور نیشنل کنسلٹنٹ شامل کیے گئے تھے، جبکہ چین سے ڈاکٹر وانگ ڈیہائی اور بنگلہ دیش سے ڈاکٹر عبدالحلیم بطور انٹرنیشنل کنسلٹنٹ آتے تھے۔
یہ پروجیکٹ ہمیں آزاد کشمیر کے محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر کرنا تھا۔ 2004ء سے 2006ء تک وقفوں وقفوں سے جاری اس پروجیکٹ کے دوران مجھے کشمیر کا چپہ چپہ گھومنے کا موقع ملا۔ میں ان 3 سالوں میں مظفر آباد، میرپور، باغ، راولاکوٹ، پلندری، اٹھمقام، شاردا وغیرہ کے ساتھ ساتھ وادئ نیلم و جہلم کے کئی چھوٹے بڑے قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچا اور مجھے آزاد کشمیر کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بھرپور موقع ملا۔
آزاد کشمیر اپنے حسین مناظر، سرسبز وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں، ہر دم رواں دریاؤں، تیز رفتار ندیوں، ٹھنڈے میٹھے چشموں اور جلترنگ بجاتے جھرنوں کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے اور جنت نظیر کہلاتا ہے۔ پھر کشمیر کے باشندے بھی اتنے پُرامن اور سلجھے ہوئے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اپنے پروجیکٹ کے دوران ہم کشمیر میں دن رات سفر کرتے، جہاں مرضی جاتے اور جہاں دل چاہتا بلا خوف و خطر رک جاتے۔ ہمیں ہر جگہ خوش آمدید کہا جاتا اور ہر جگہ تعاون ہی ملتا۔
2004ء کی گرمیوں کے دن تھے جب ہمارا کشمیر کے ایک بلند اور خوبصورت ہل اسٹیشن ‘تراڑ کھل’ جانا ہوا۔ تراڑ کھل آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی کا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس قصبے کو یہ تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ کشمیر کی آزاد حکومت کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔ سردار ابراہیم خان نے 24 اکتوبر 1947ء کو یہاں آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی تھی اور اسی مقام پر آزاد کشمیر فوج قائم کرکے بھارتی ڈوگرہ سینا سے جنگ کا آغاز کیا تھا۔
چنانچہ تراڑ کھل کو تحریک آزادئ کشمیر کا بیس کیمپ بھی سمجھا جاتا ہے۔ آزادی حاصل ہوتے ہی کشمیر کا سب سے پہلا دارالحکومت بھی تراڑکھل میں ہی ’جونجال ہل’ کے مقام پر بنایا گیا تھا اورکچھ عرصے بعد مظفر آباد منتقل کیا گیا تھا۔ آزاد کشمیر کا پہلا ریڈیو اسٹیشن بھی تراڑ کھل میں ہی 16 اکتوبر 1948ء کو شروع کیا گیا تھا جو اس دور میں آزاد کشمیر کے پورے پاکستان اور دنیا بھر سے مواصلاتی رابطے کا اہم ذریعہ تھا۔ پاکستان کے معروف ادیب جناب اشفاق احمد بھی تراڑ کھل ریڈیو سے وابستہ رہے ہیں اور یہاں کچھ عرصہ گزارا ہے۔
جب ہمارا گروپ تراڑ کھل پہنچا تو شام ہو رہی تھی۔ موسم تو گرمیوں کا تھا لیکن یہ جگہ چونکہ سطح سمندر سے 6 ہزار فٹ بلند ہے، اس لیے یہاں موسم ٹھنڈا ہی تھا۔ ہمیں یہاں صرف ایک رات ہی گزارنی تھی۔ ہوٹل تو یہاں کوئی تھا نہیں، بس ایک دو سرکاری ریسٹ ہاؤس ہی تھے۔ ایک تو پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کا قدیم چنار ریسٹ ہاؤس تھا جو تراڑ کھل کے مختصر قصبے میں مین روڈ پر واقع تھا۔ تراڑ کھل مین روڈ پر موجود چند دکانوں پر مشتمل یہ مختصر سی مارکیٹ کوئی نصف کلومیٹر طویل ہوگی۔ مارکیٹ کے آخر میں دونوں طرف ویرانہ اور گھنا جنگل تھا۔ ہم سیدھے چنار ریسٹ ہاؤس پہنچے۔
تکونی چھتوں والے 2 وسیع و عریض چوبی کمروں پر مشتمل یہ قدیم عمارت خاصی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ چنار کے بلند و بالا قدیم درختوں سے گھرے اس شاندار ریسٹ ہاؤس میں معروف ادیب قدرت اللہ شہاب نے بھی کچھ دن گزارے ہیں۔ 1948ء میں جب وہ آزاد کشمیر کی نئی حکومت میں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو وہ یہاں تراڑ کھل میں ہی آکر رہے کیونکہ اس وقت کشمیر کا دارالحکومت بھی یہیں تھا۔