آپ ’خواجہ سرا‘ کا مطلب جانتے ہیں؟ اس اصطلاح کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
کچھ برقی اور ورقی لطیفے۔ آج کسی چینل کا نام کیا دینا، لیکن خبر عجیب ہے اور سوشل میڈیا پر اس کا چرچا بھی ہے۔ خبریں سنانے والی خاتون نے یہ تشویشناک خبر دی کہ چمن میں خواجہ سرا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے 5 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ کون سی وبا ہے جو بچوں کو ہلاک کررہی ہے!
خاتون نے پہلے تو کھُسرے کی وبا کہا، پھر خیال آیا کہ کھسرا کہنے سے اس مخلوق کی دل آزاری ہوگی، چنانچہ کھسرے کا مہذب ترجمہ کردیا: خواجہ سرا۔ یہاں یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ خاتون نیوز ریڈر کو یہ معلوم تھا کہ کھسرے کا متبادل خواجہ سرا ہے ورنہ اب یہ لفظ عام نہیں رہا، زیادہ سے زیادہ ہیجڑا یا مخنث کہہ دیا جاتا ہے جس وبا کا ذکر تھا وہ خسرہ ہے۔ لیکن یہ ’خواجہ سرا‘ کیا ہے؟ خواجہ تو ایک معزز لقب ہے اور ’سرا‘ محل یا حویلی کو کہتے ہیں۔
’خواجہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’خواجگان‘ ہے۔ خواجہ سردار یا آقا کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین۔ اور خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔ یہ امیروں اور بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی بھی کرتے ہیں اور زنانے میں آنے جانے کی انہیں اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کو محلّی بھی کہتے ہیں۔