دنیا

امریکی ماہر نفسیات کا گوانتاناموبے میں تفتیش کے پرتشدد طریقوں کا دفاع

سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کو بنانے والے ماہر نفسیات جیمز مچل نے تفتیش کے لیے پرتشدد طریقوں کے استعمال کا دفاع کیا۔

11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ٹارچر پروگرام کو بنانے میں مدد فراہم کرنے والے ماہر نفسیات نے کیوبا میں گوانتاناموبے میں تفتیش کے لیے استعمال کیے گئے پرتشدد طریقوں کا دفاع کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 9/11 حملوں کے بعد اس کے الزام میں خفیہ جیل میں رکھے گئے افراد پر تشدد کا جیمز مچل نے غیر معذرت خواہانہ انداز میں دفاع کیا۔

مزید پڑھیں: گوانتاناموبے میں 91 قیدی باقی رہ گئے

خیال رہے کہ گوانتاناموبے میں سنگین الزام میں قید افراد کو رکھا جاتا تھا اور ملزمان کو شدید ذہنی و جسمانی اذیت دی جاتی تھی جس میں ملزمان کو نیند سے محروم رکھنا، کسی ایک خاص پوزیشن میں گھنٹوں تک بٹھانا یا کھڑے رکھنا اور پانی میں تواتر کے ساتھ ڈبکی دینے کے ساتھ ساتھ متعدد اذیت ناک طریقے شامل ہیں۔

گوانتاناموبے میں سزائے موت کے منتظر پانچ افراد کی فوجی ٹریبونل کی پیشی کے موقع پر جیمز مچل نے ان سزاؤں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج اٹھ کر دوبارہ اس عمل کو دہرایا۔

9/11 کو القاعدہ کے حملے میں 2 ہزار 976 افراد کی ہلاکت کے بعد امریکا نے شدت پسند گروپوں کے خلاف آپریشنز کا آغاز کیا تھا جن میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے گوانتاناموبے لایا گیا تھا اور مچل ان افراد کے خلاف تفتیش کے ان بدترین طریقوں کو متعارف کرانے والے افراد میں سے ایک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گوانتانامو جیل کی بندش، اوباما وعدہ پورا نہ کرسکے

امریکی ماہر نفسیات کی جانب سے متعارف کرائے گئے تفتیش کے ان بدترین طریقوں کو غیر قانونی قرار دے کر اب پابندی لگائی جا چکی ہے لیکن جیمز مچل اب بھی ان طریقوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اس طرح کی سزائیں تجویز کرنا ان کی اخلاقی ذمے داری تھی۔

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک ہمارے خلاف رضاکارانہ بنیادوں پر ہتھیار اٹھانے والے ان دہشت گردوں کو اذیتیں کے بارے میں سوچنے سے زیادہ امریکی عوام کی زندگی کو محفوظ بنانا بڑی ترجیح تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو میری نظر میں یہ مجھے میری اخلاقی ذمے داریوں سے پہلو تہی محسوس ہوتی۔

جیمز مچل نے کچھ تفتیش میں خود بھی شرکت کی جن میں سی آئی اے کی جانب سے ابتدا میں گرفتار کیے گئے اسامہ بن لادن کے ساتھی ابوزبیدہ بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: 'میں گوانتانامو میں مرنا نہیں چاہتا'

ابوزبیدہ اب بھی گوانتاناموبے میں قید ہیں لیکن وہ منگل کو کمرہ عدالت میں جیمز مچل کا سامنا کرنے والے پانچ افراد میں شامل نہیں تھے۔

جو لوگ کمرہ عدالت میں موجود تھے ان میں شیخ محمد شامل تھے جنہیں 183مرتبہ پانی میں ڈبکی مطلب 'واٹر بورڈنگ' کی اذیت برداشت کی گئی اور اس تفتیشی ٹیم میں بھی جیمز مچل شامل تھے۔

اس کے علاوہ شیخ محمد کے بھتیجے عمار البلوچی، ولید اتاش اور دیگر دو افراد شامل ہیں اور ان میں سے کسی نے بھی 2000 کے اوائل میں گرفتاری کے بعد سے جیمز مچل کا سامنا نہیں کیا۔

امریکی ماہر نفسیات کو ان قیدیوں کے خلاف گواہی کے لیے بلایا گیا تھا جہاں گوانتاناموبے میں قید چند ملزمان نے اپنے خلاف مقدموں میں استعمال کیے جانے والے ثبوتوں کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔

سی آئی اے کی جانب سے فراہم کیے جانے والے ثبوت کمرہ عدالت میں استعمال نہیں کیے جا سکتے اور ملزمان چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن میں چل رہے مقدمے میں بھی ان ثبوتوں کو قابل عمل تصور نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ابو زبیدہ کا گوانتا نامو جیل میں تشدد کے خلاف گواہی سے انکار

کئی سال سے جاری تفتیش اور ٹرائل کے باوجود ملزمان کے خلاف مقدمہ اب بھی ابتدائی مرحلے میں ہی ہے جس کی وجہ ناقص انتظامی امور اور دونوں اطراف کی قانونی ٹیموں کے تاخیری حربے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جولیا ہال نے امریکی ماہر نفسیات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ متاثرین کے اہلخانہ کو اب تک انصاف نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ جیمز مچل ہیں کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ گواہی متاثرین اور ان کے اہلخانہ کے لیے دے رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ مچل کی جانب سے قیدیوں کے لیے متعارف کرائے گئے تشدد کے طریقوں کی وجہ سے مقدمات تاخیر کا شکار ہوئے اور اس دوران کی گئی تحقیقات میں حاصل ہونے والے ثبوتوں کو مقدمے کی کارروائی میں استعمال بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔