شوکت علی اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کی اہلیہ کا بہتر علاج ایس آئی یو ٹی میں مفت ہو رہا ہے
ایمبولینس کی کمی یا ان کی کم کرائے پر عدم دستیابی صرف شکارپور کے شوکت علی اور جیکب آباد کے بانھو خان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ لاکھوں سندھ واسیوں کو درپیش ہے کیوں کہ صوبے میں سرکاری ایمبولینسز کی تعداد انتہائی کم ہے۔
سندھ کا شمار آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے میں ہوتا ہے مگر یہاں سرکاری ایمبولینسز کی تعداد انتہائی کم ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق صوبے بھر میں 669 سرکاری ایمبولینسز موجود ہیں جن میں سے بھی 168 خراب ہیں اور یوں تقریباً سندھ کے 96 ہزار افراد کے لیے محض ایک سرکاری ایمبولینس دستیاب ہے۔
سال 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق صوبہ سندھ کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار51 تھی جس میں گزشتہ 3 سال کے دوران نمایاں اضافہ ہوا اور آبادی بڑھ کر 5 کروڑ سے زائد ہوگئی۔
سندھ کے مؤقر اخبار روزنامہ کاوش میں کچھ دن قبل ایک رپورٹ شائع ہونے کے بعد جب ڈان نے محکمہ صحت سندھ سے رابطہ کیا تو حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ دسمبر 2019 تک صوبے بھر میں سرکاری ایمبولینسز کی تعداد 669 تھی جس میں سے بھی 168 گاڑیاں خراب تھیں۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے ڈان کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ ایمبولینسز شمالی سندھ کے ضلع شکارپور میں 39 فراہم کی گئی ہیں جن میں سے 15 ایمبولینسز خراب ہیں۔
صوبے بھر میں موجود سرکاری ایمبولینسزمیں سے بھی صرف کراچی اور حیدرآباد کی کچھ سرکاری ایمبولینسز مریضوں کے کام آتی ہیں جب کہ باقی دیگر اضلاع میں حالات اس کے برعکس ہیں۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ضلع میرپورخاص کو 33، خیرپور کو 32، بے نظیر آباد کو 30، تھرپارکر کو 29، ضلع حیدرآباد کو 22، دادو کو 21، بدین کو 19، عمر کوٹ کو 19، سجاول کو 10، جامشورو کو 10، ٹھٹہ کو 17، مٹیاری کو 27، ٹنڈو محمد خان کو 12، سکھر کو 16، گھوٹکی کو 17، لاڑکانہ کو 26، جیکب آباد کو 8، قمبر شہدادکوٹ کو 15 سانگھڑ کو 21، نوشہروفیروز کو 25، کراچی کے ضلع ملیر کو 10 اور ضلع غربی کو ایک ایمبولینس فراہم کی گئی تھی۔
مذکورہ اضلاع کو فراہم کی گئی ایمبولینسز میں سے بھی مجموعی طور 168 ایمبولینسز کافی وقت سے خراب پڑی ہیں اور سب سے زیادہ ایمبولینسز قحط سالی کے شکار ضلع تھرپارکر میں خراب ہیں۔
تھرپارکر کی 29 سے 26 ایمبولینسز ناکارہ ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر نوشہروفیروز ضلع ہے جہاں کی 25 سے 12 ایمبولینسز خراب ہیں، تیسرے نمبر پر شکارپور ہے جہاں کی 39 میں سے 15 ایمبولینسز خراب ہیں۔
رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے صوبے کے سب سے بڑے ڈویژن اور ملکی معیشت کے حب کراچی کے 4 اضلاع کو ایک بھی سرکاری ایمبولیس فراہم نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی ڈویژن کے ضلع شرقی، جنوبی، وسطی اور کورنگی کو ایک بھی سرکاری ایمبولینس فراہم نہیں کی گئی۔
تاہم رپورٹ کے مطابق اگرچہ کراچی ڈویژن کے 4 اضلاع کو ایک بھی سرکاری ایمبولینس فراہم نہیں کی گئی لیکن پھر بھی کراچی میں سب سے زیادہ سرکاری ایمبولینسز فراہم کی گئی ہیں۔
کراچی کے ضلع ملیر اور غربی کی 11 ایمبولینسز سمیت سول ہسپتال، جنرل ہسپتال لیاری، سروسز ہسپتال، ایس جی ایچ ہسپتال ابراہیم حیدری، سندھ گورنمنٹ ہسپتال کورنگی، سندھ قطر ہسپتال، سندھ گورنمنٹ ہسپتال لیاقت آباد، چلڈرن ہسپتال ناظم آباد، سندھ گورنمنٹ ہسپتال نیوکراچی، سندھ گورنمٹ ہسپتال نیوسعود آباد اور اربن ہیلتھ سینٹر نارتھ کراچی کو بھی علیحدہ ایمبولینسز فراہم کی گئی ہیں۔
مجموعی طور پر کراچی کی ضلعی حکومتوں، ہسپتالوں اور صحت کے مراکز کو 67 ایمبولینسز فراہم کی گئی ہیں اور یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔