ماہ بیگم کی گمشدہ قبر کی تلاش
ماہ بیگم کی گمشدہ قبر کی تلاش
وقت جہاں ماں کی گود جیسا شفیق ہے وہیں تپتے ریگزاروں جیسا بے رحم بھی۔ وقت کو ان 2 مرکزی تصورات میں ہم اس لیے تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی کیفیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور یہ معاملہ صرف وقت کے ساتھ نہیں بلکہ اس پوری دنیا کو ہی 2 حالات، محسوسات اور کیفیات میں بانٹا گیا ہے۔ دن اور رات میں، غم اور خوشی میں، آنسو اور مسکان میں۔
ان 2 دائروں میں زندگی کے سارے سُکھ اور دُکھ پنپتے ہیں۔ ان دائروں میں جب انسان کمزور پڑنے لگتا ہے تو قسمت کی لاٹھی کے سہارے خود کو تقویت دے کر سفرِ حیات کو جاری رکھتا ہے کہ زندگی جو ہماری خواہش کے بدلے ہمیں یقیناً نہیں ملی مگر جب جھولی میں ڈال دی جاتی ہے تو پھر وہ ہمارے محبوب کا روپ دھار لیتی ہے، اور جب زیست محبوب بن جائے تو پھر گلزار و گلستان کیا؟ ریگزار اور تپتے صحرا کیا؟
ہمارا آج کا سفر، قندھار اور کابل کی ٹھنڈی گلیوں اور ہر وقت بیدار رہنے والے محلات سے شروع ہوگا اور اس کا اختتام ہزاروں میل دُور ننگر ٹھٹہ کے ان محلات میں ہوگا، جہاں زندگی شاید ہی کبھی اپنی مرضی سے ہنسی ہوگی کہ بادشاہوں کی محلات میں تمناؤں کے کنول مشکل سے ہی کِھلا کرتے ہیں۔ بس خواہشوں کے وحشی جنگل اگتے ہیں جن پر سوال اور مرضی کی کوئی کونپل نہیں پھوٹتی، اگر کچھ اگتا بھی ہے تو سرِتسلیم خم کی آکاس بیل جس کے نصیب میں نہ پتے ہوتے ہیں نہ میوہ۔
چنگیز خان (پیدائش 16 اپریل 1162ء، بروز پیر)، ہلاکو خان (پیدائش 15 اکتوبر 1218ء، بروز پیر) ارغون خان (جنم 17 اپریل 1250ء، بروز اتوار)، امیر تیمور (جنم 9 اپریل 1326ء، بروز منگل) کو پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جنوب اور مغرب کا رخ کیا اور وہاں کے سارے منظرنامے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ یہ منگول اور تُرک تھے، جن کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔
ان وقتوں کے پس منظر کے ساتھ لکھی جانے والی جتنی بھی تاریخ کی کتابوں کا آپ مطالعہ کرنے بیٹھیں گے تو ان میں گھوڑوں کی ٹاپوں، ہاتھیوں کی چنگھاڑیں، بہتا خون، تلواریں، جنگ کے میدانوں میں سے اُڑتی دُھول کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ آپ کو اس تاریخ کی شَبوں میں نیند کم اور شب خون زیادہ نظر آئیں گے۔ ارغون، مغل اور ترخان ایک ہی درخت کی شاخیں تھیں۔ اگر ہم 15ویں صدی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ان کا ایک (چوتھا) امیر ’ذوالنون ارغون‘ (1479ء) افغانستان و خراسان کے حکمران ’سلطان بایقرا‘ کے زمانے میں، پہلے ہمیں قندھار کا صوبیدار اور پھر حاکم کی حیثیت میں نظر آتا ہے۔